جب سے انتہا پسند وزیراعظم نریندرمودی اقتدار میں آئے ہیں، انہوں نے جنوبی ایشیا میں امن کے تمام امکانات کو معدوم کردیا ہے۔ ان کے ذہن میں پاکستان دشمنی کا مظاہرہ اکثر لائن آف کنٹرول اور انٹر نیشنل بائونڈری پر بلا اشتعال فائرنگ سے بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کی کابینہ میں بیشتر وفاقی وزیر آر ایس ایس کے پیرو کار ہیں، اور پاکستان کے ساتھ دوستی یا مفاہمت قائم کرنے کے بجائے دھمکیوں سے مرعوب کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ نریندرمودی کے ایما پر ہوتا ہے، تاکہ جنوبی ایشیا کے ان دو ملکوں کے درمیان تنائو بدستور جاری رہے جبکہ دوسری طرف بھارتی عوام کو درپیش سنگین مسائل سے توجہ بھی ہٹائی جاسکے، لیکن بھارت کے باشعور عوام اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ پاکستان کے خلاف مسلسل ہرزہ سرائی بھارت کے وسیع تر مفاد میں نہیں ہے۔ اس کشیدگی سے انتہا پسند عناصر کو تقویت ملے گی، جن کا اپنا مخصوص ایجنڈا ہے‘ جس کے تحت وہ سرحد کے دونوں طرف افراتفری پیدا کرکے ان ممالک کو معاشی و ثقافتی طورپر کمزور کرنا چاہتے ہیں، بلکہ اس پر تلے ہوئے ہیں، اور اچھے تعلقات کے قیام میں رکاوٹ بھی بن رہے ہیں۔اسی پس منظر میں بھارت کے وزیروفاع نے بغیر کسی لگی لپٹی کے یہ کہا ہے کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کو پھیلائیں گے، پاکستان میں بھارتی فوج کو بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ دہشت گردی کے ذریعہ ہی اس کو ''ٹھیک‘‘ کیا جاسکتا ہے۔ بھارتی وزیردفاع کا یہ بیان بین الاقوامی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے، بلکہ اس بیان سے اس سوچ کو تقویت ملتی ہے، کہ بھارت پاکستان میں جگہ جگہ ''را‘‘ کے ذریعہ دہشت گردی کرا رہا ہے،ان میں بلوچستان کے کچھ علاقے‘ فاٹا اور کراچی شامل ہیں۔ حکومت پاکستان کو اس کا بخوبی علم ہے، لیکن اس کے خلاف حکومت پاکستان کی حکمت عملی نا قابل فہم ہے۔ مزید برآں نیشنل سکیورٹی کے ایڈوائزر جناب سرتاج عزیز نے بھارتی وزیردفاع کے جواب میں جو بیان دیا ہے، وہ انتہائی کمزور ہے اور پاکستان کے عوام کے جذبات کی ترجمانی نہیں کرتا۔ ہماری ڈپلومیسی کی کمزوری کی وجہ سے بھارت خوب فائدہ اٹھا رہا ہے۔ نیز بھارت کی کابینہ اور خود وزیراعظم مودی کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ میاں نواز شریف کا جھکائو بھارت کی جانب ہے، اس لئے وہ بھارت کے خلاف کوئی بھر پور جواب دینے یا کارروائی کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے ہیں۔ شنید ہے کہ انہوںنے اپنے بعض قریبی ساتھیوں سے کہا ہے کہ'' میں بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتا ہوں لیکن فوج آڑے آجاتی ہے‘‘ (دروغ پر گردن راوی)۔ لیکن جیسا کہ میں نے بالائی سطور میں عرض کیا ہے کہ بھارت کا پاکستان کے ساتھ دوستی کرنے کا ایجنڈا نہیں ہے، وہ ''را‘‘ کے ذریعے اور دیگر زرخرید ایجنٹوں کے تعاون سے پاکستان کی سالمیت اور وحدت کے حوالے سے بے پناہ مسائل کھڑا کرنا چاہتا ہے، بلکہ وہ ایسا کررہا ہے۔ بھارتی وزیروفاع کا پاکستان کے اندر دہشت گردی کرانے کے حوالے سے یہ بیان اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے، کہ پاکستان میں گذشتہ کئی سالوں سے جو دہشت گردی ہورہی ہے، اس کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے، جس کی وجہ سے ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر نہیں ہوپارہے، بلکہ ہر گذرتے دن کے ساتھ بگاڑ میں اضافہ ہورہا ہے، اور غلط فہمیاں فروغ پارہی ہیں۔ بھارتی وزیردفاع کے بیان پر امریکہ کو غور کرنا چاہیے جو دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف مختلف محاذ بنائے ہوئے ہے اور جس میں پاکستان بھی اسکا پارٹنر ہے۔ کیا امریکہ کی قیادت بھارتی وزیردفاع کے بیان کے بعد یہ نہیں سوچے گی کہ اس کی دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں میں بھارت سب سے بڑی رکاوٹ بن رہا ہے؟ اورکیا امریکہ کی یہ ازلی خواہش نہیں ہے، کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اچھے ہمسایوں والے تعلقات قائم ہوں تاکہ جنوبی ایشیا کے یہ دونوں ملک باہم ملکر دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کام کریں؟ یقینا امریکہ کی جنوبی ایشیا سے متعلق خارجہ پالیسی کا جھکائو اسی طرف ہے کہ بھارت اور پاکستان باہمی تعلقات میں بہتری لاتے ہوئے جہاں دہشت گردی کے خلاف موثر کارروائیاں کریں‘ وہیں وہ اپنے مسائل مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے کی بھی کوشش کریں، لیکن بھارتی وزیر دفاع کے دہشت گردی سے متعلق جارحانہ بیان کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی مزید بڑھے گی اور یوں اس خطے یعنی جنوبی ایشیا میں امریکہ کی خارجہ پالیسی بھی ناکام ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ میری رائے کے مطابق اقوام متحدہ کو فی الفور بھارتی وزیردفاع کے بیان کا نوٹس لینا چاہیے اور بھارتی حکومت سے پوچھنا چاہیے کہ کیا وہ دہشت گردی کے خاتمے کے خلاف ہے یا پھر اس کی حمایت کرتا ہے۔ اگر اقوام متحدہ نے اس سلسلے میں پیش
رفت کی تو پاکستان اس کی بھر پور حمایت کرے گا، کیونکہ پاکستان کے پاس بھارتی مداخلت کے واضح ثبوت موجود ہیں ، جس کی مدد سے اقوام متحدہ بھارتی حکومت کو واضح تنبیہ کر سکتی ہے، نیز اقوام متحدہ بھی دنیا کے مختلف حصوں میں ہونے والی دہشت گردی کی وجہ سے سخت اضطراب میں ہے، جبکہ بھارتی وزیردفاع کے بیان سے خود اقوام متحدہ کی دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے کا اندیشہ پیدا ہوچکا ہے۔ اس پس منظر میں بھارتی حکومت کا پاکستان کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں ایک اور تضاد گزشتہ دنوں کھل کر سامنے آیا ہے، جس میں نریندرمودی نے پاکستان کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کی تجویز پیش کی تھی۔ بظاہر یہ تجویزبہت اچھی‘ مناسب اور بر وقت ہے، لیکن نیت صاف نہیں ہے۔ کرکٹ ڈپلومیسی کا آغاز مرحوم صدر جناب ضیاء الحق نے شروع کیا تھا جس کی وجہ سے بہت حد تک پاکستان اور بھارت کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم ہوگئے تھے، لیکن کارگل کے بعد یہ تعلقات پھر خراب ہونا شروع ہوگئے ‘یہاں تک کہ بھارتی فوج پاکستان کے بارڈر پر آکر حملہ کرنا چاہتی تھی، لیکن پاکستان نے اپنے نیوکلیئر ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی تو بھارتی فوج واپس بیرکوں میں چلی گئی۔ اس دوران پاکستان کی فوج بھی بھارتی فوج کے مد مقابل کھڑی تھی اور ہر قسم کی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار تھی۔ اب نریندرمودی پاکستان کے ساتھ کرکٹ سریز کا آغاز کرنا چاہتے ہیں، لیکن پاکستان میں اس بیان کی پذیرائی نہیں ہوئی کیونکہ پاکستان کے عوام اس حقیقت سے واقف ہوچکے ہیں کہ بھارت کا یہ
انتہا پسند وزیراعظم پاکستان کے خلاف اپنے ذہن میں کتنے خطرناک عزائم رکھتا ہے۔ مزید برآں بھارتی وزیردفاع کے پاکستان میں دہشت گردی کرانے سے متعلق بیان سے کرکٹ ڈپلومیسی اپنی افادیت کھو چکی ہے، اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار نہتے کشمیری عوام پر کس طرح کا ظلم ڈھا رہی ہے، اس کی جھلکیاں عالمی پریس میں دیکھی اور محسوس بھی کی جاسکتی ہیں، جسکی وجہ سے ان دونوں ملکوں کے مابین دوری پیدا ہورہی ہے، بلکہ غم و غصہ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام جو گزشتہ کئی دہائیوں سے بھارتی ظلم وجور کے علاوہ اس کے ناجائز تسلط کے خلاف قربانیاں بھی دے رہے ہیں ، انہیں موہوم سی امید پیدا ہو چلی تھی، کہ شاید مقبوضہ کشمیر میں مفتی سعید کی قیادت میں بننے والی مخلوط حکومت کشمیری عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے گی، لیکن ایسا دیکھنے میں نہیں آرہا ہے۔ مخلوط حکومت بھارتی فوج اور پولیس کے ظلم کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے،حالانکہ ابھی دو ماہ قبل مفتی سعید نے کہا تھا کہ کشمیری رہنمائوں کے ساتھ مذاکرات کرکے ہی کشمیر کا مسئلہ حل نکالا جاسکتا ہے۔ نریندرمودی نے مفتی سعید کے اس بیان کا بہت بُرا منا یا تھا بلکہ کچھ عرصے کے لئے بات چیت بھی بند کردی تھی ، چنانچہ اب معروضی حالات کے پیش نظر بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں بہتری لانے کی ساری ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے، جو پاکستان کے اندر اپنے مداخلت کاروں کے ذریعہ دہشت گردی کروا کے جنوبی ایشیا میں حالات کو خراب سے خراب تر کررہا ہے۔ یہ صورتحال کرکٹ ڈپلومیسی سے ٹھیک نہیں ہوسکتی بلکہ ٹھوس‘ بامعنی اور صاف نیت پر مبنی مذاکرات کے ذریعہ جنوبی ایشیا میں امن اور انسانی ترقی کے حوالے سے نمایاں تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں، بشرطیکہ حقائق کا سامنا کرنے کا حوصلہ ہو!