اشرف غنی کا یُو ٹرن

گزشتہ برس افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا تو وہ سیدھے جی ایچ کیو گئے تھے، جہاں ان کا چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے پرتپاک استقبال کیا تھا۔ اس اہم ملاقات میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ دونوں ممالک باہم مل کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھر پور تعاون کریں گے۔ جنرل راحیل شریف نے افغان صدرکو دو ٹوک الفاظ میں بتا دیا تھا کہ افغانستان میں اگر امن قائم ہوگا تو پاکستان میں بھی ہوگا۔ پاکستان امن کے قیام کے سلسلے میں افغان حکومت کی ہر ممکن مدد اور حمایت کرے گا اوراس سلسلے میں جو بھی فیصلہ کیا جائے گا پاکستان اسے من وعن قبول کرے گا۔ پاکستان کی سیاسی قیادت نے بھی افغان صدر سے کم و بیش یہی کہا تھا کہ ہمیں ماضی کو فراموش کرتے ہوئے آگے کی طرف پیش قدمی کرنی چاہیے کیونکہ افغانستان اور پاکستان دونوں کو امن کی ضرورت ہے اور دونوں کے باہمی تعاون سے ہی امن کا خواب پورا ہوسکتا ہے۔
افغان صدر کے دورہ پاکستان کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان امن اور بھائی چارے کی ایک نئی فضا ابھر تی نظر آرہی تھی اور دونوں ملکوں کے عوام کی اکثریت اشرف غنی کی نئی سوچ سے مطمئن نظر آرہے تھے۔ اس دوران پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت نے افغانستان کا دو مرتبہ دورہ کیا اورانہیں اپنے تعاون کا ایک بار پھر یقین دلاتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد دونوں ملکوں کے دشمن ہیں جو اپنی مذموم کارروائیوں سے پورے خطے کو عدم استحکام سے دو چار کررہے ہیں۔ جب پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا تو راحیل شریف نے فوراً افغانستان کا دورہ کیا اور افغان صدرکو آگاہ کیا کہ یہ حملہ افغانستان کی جانب سے کیا گیا ہے جس میں ملا فضل اللہ شامل ہے جو اس وقت افغانستان میں روپوش ہے۔ انہوں نے افغان صدر سے مطالبہ کیا کہ ملا فضل اللہ کو پاکستان کی تحویل میں دیا جائے۔
پاکستان نے ایک بار پھر افغانستان میں امن کی خاطر افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان قطر میں مذاکرات کا اہتمام کیا۔ پاکستان کی اس کوشش میں امریکہ بھی پیش پیش تھا۔ اس وقت قطر میں افغان طالبان کا سیاسی دفتر کھل چکا ہے اور خفیہ مذاکرات بھی جاری ہیں۔ قطر میں مذاکرات کے فوراً بعد افغان طالبان نے بیجنگ (چین) میں چینی قیادت سے بھی بات چیت کی جس سے ظاہر ہورہا ہے کہ چین بھی افغانستان میں امن کا قیام چاہتا ہے اور وہ اس سلسلے میں پاکستان کی حمایت کرتا ہے۔ لیکن اشرف غنی نے اس سال جب بھارت کا دورہ کیا اور نریندرمودی سمیت وہاں کے سیاسی رہنمائوں سے بات چیت کی تو ان کی سوچ اور ان کے لب و لہجہ میں خاصی تبدیلی آگئی۔ وہ حکومت پاکستان سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ افغان طالبان کی سرگرمیاں محدود کرنے میں پاکستان اپنا کردار ادا کرے۔ بالخصوص حقانی نیٹ ورک کی کارروائیاں روکنے کے سلسلے میں اشرف غنی کا مطالبہ حقائق پر مبنی نہیں کیونکہ افغان طالبان کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہیں یہ مشورہ بھارت نے دیا جو افغانستان اور پاکستان کے مابین مفاہمت نہیں چاہتا۔
دراصل افغان طالبان اپنے ملک یعنی افغانستان میں غیر ملکی افواج کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ افغان طالبان کا خیال یہ ہے کہ موجودہ افغان حکومت ماضی کی طرح امریکی اور بھارتی ایجنٹوں پر مشتمل ہے جنہوں نے امریکہ کے ساتھ مل کر ہزاروں افغانیوںکا قتل عام کیا؛ چنانچہ غیر ملکی افواج اور ان کے ایجنٹوں کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ افغان حکومت اور امریکی فوجیوں کے خلاف افغان طالبان کی کارروائیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ افغان حکومت اور نیشنل آرمی افغان طالبان کا مقابلہ نہیں کر پا رہیں بلکہ افغان فوجی طالبان کے ساتھ ملتے جارہے ہیں۔ مزید برآں، افغان حکومت کی مالی حالت بہت ہی کمزور ہے، افغان حکومت کو اپنا نظم ونسق چلانے اور فوجیوں کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے سات ارب ڈالر درکار ہیں جو انہیں کوئی ملک دینے کو تیار نہیں۔ امریکہ نے بمشکل ایک ارب ڈالر افغان حکومت کو دیے ہیں جس سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ افغان حکومت میں ماضی کی طرح اس وقت بھی بے پناہ کرپشن ہورہی ہے جس کی بنیاد سابق صدر حامد کرزئی نے رکھی تھی جو اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کو پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات
قائم نہ کرنے کا مشورہ دیتا رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حامد کرزئی افغانستان میں بھارت کا نمائندہ ہے جو پاکستان کے خلاف ''را‘‘ کی مدد سے دہشت گردی پھیلارہا ہے اور ان عناصر کو اپنے گرد جمع کررہا ہے جو پاکستان کی سرحدوں کے قریب پاکستان کی چیک پوسٹوں پر حملہ کرتے رہتے ہیں۔ ملا فضل اللہ کو حفاظتی اور مالی امداد بھی حامد کرزئی کے ذریعے مل رہی ہے۔ جب پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے درمیان سمجھوتے میں طے پایا تھا کہ یہ دونوں ادارے مل کر نہ صرف انٹیلی جینس معلومات کا بتادلہ کریںگے بلکہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی بھی تربیت دیں گے تو یہ سمجھوتہ حامد کرزئی کے علاوہ ان تمام عناصر کو پسند نہ آیا جو بھارت کے ایما پر پاکستان کے لیے مشکلات میں اضافہ کررہے ہیں۔ چنانچہ حامد کرزئی اور اس کے ساتھیوں نے اس سمجھوتے پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس دوران پاکستان کو اس کے اہم خفیہ اداروں کو ناقابل تردید ذرائع سے معلوم ہوا کہ ''را‘‘ اور این ڈی ایس پاکستان میں دہشت گرد عناصرکی حمایت اور مدد کر رہے ہیں۔ مستونگ میں ہونے والی دہشت گردی میں یہ دونوں ایجنسیاں شامل تھیں جس کے شواہد بلوچستان حکومت کے پاس موجود ہیں۔اس لیے اب پاکستان کو چاہیے کہ وہ افغانستان سے اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرے کیونکہ اشرف غنی افغانستان میں موجود بھارت نواز
طاقتوں کے سامنے کمزور پڑگئے ہیں بلکہ بے بس نظر آتے ہیں اور وہی گیم کھیل رہے ہیں جو اس سے قبل حامد کرزئی پاکستان کے خلاف کھیلا کرتا تھا۔ اشرف غنی کے یو ٹرن سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آرہی ہے کہ پاکستان کے اندر ایک بار پھر بھارت اور افغانستان مل کر دہشت گردی پھیلائیں گے اور پاکستان کو کمزور کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے بالخصوص چین کی مدد سے شروع ہونے والی اقتصادی راہداری کو سبوتاژ کرنے میں اپنی مکروہ چال بازیوں سے باز نہیں آئیں گے۔ پاکستان کو اپنی سیاسی حکمت عملی اور اللہ کی نصرت پر بھروسہ کرتے ہوئے حالات کا مقابلہ کرنے کا پختہ ارادہ کرلینا چاہیے۔ افغان طالبان کی افغان حکومت کے علاوہ غیر ملکی فوجیوں کے خلاف ہونے والی کارروائیاں افغانستان کا اندورنی معاملہ مسئلہ ہے، اس سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی پاکستان افغان طالبان کو اپنی جدوجہد ختم کرنے یا ہتھیار پھینکنے کا مشورہ دے سکتا ہے۔ افغان طالبان گزشتہ چودہ برس سے افغانستان میں موجود غیر ملکی فوجوں اور ان کے ایجنٹوں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں جس میں انہیں مسلسل کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔ جہاں تک قطر میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات کا تعلق ہے، پاکستان اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا؛ تاہم اشرف غنی جس ڈگر پر چل پڑے ہیں وہ ان کی حکومت کو مزید کمزور کردے گی جبکہ وہ طاقتیں مضبوط ہوں گی جو دہشت گردی کے ذریعے پورے خطے کو تباہی سے دوچار کرنے کے درپے ہیں۔ بھارت کی یہی خواہش ہے بلکہ وہ بتدریج پاکستان کو ایک ہولناک جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں