کراچی میں گزشتہ آٹھ روز جو قیامت خیز گرمی پڑی ، اس میں کم از کم ایک ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔ ان میں زیادہ تر بوڑھے، عورتیں، بچے ، بیمار اور لاغر افراد شامل تھے۔ عام لوگوں کا خیال ہے چونکہ ہمارے اعمال انتہائی خراب ہوچکے ہیں، ہم نے سچائی، حق اور انسانیت کا راستہ چھوڑ دیا ہے، دولت کمانے کے ناجائز ذرائع اپنائے ہیں‘ اس لیے شدید گرمی پڑ رہی ہے۔ گویا یہ ایک قسم کا عذاب الٰہی ہے، دوسرے لفظوں میں حکمرانوں کی جانب سے کی جانے والی کرپشن اور غلط طرز حکمرانی کے سبب سندھ سمیت پورے پاکستان کے ماحولیاتی اور موسمی حالات خراب سے خراب تر ہو رہے ہیں۔ بڑے لوگوں کے کرتوتوں کی سزا عام غریب آدمی بھگت رہا ہے۔ غریبوں کے ساتھ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے۔ باشعور لوگوں اور سائنس دانوں کا خیال ہے کہ دنیا بھر میں موسم بدل رہے ہیں اور یہ سب کچھ موسمی تغیر(Climate Change)کا نتیجہ ہے۔ کاربن ڈائی آکسائڈ کے زیادہ اخراج کے باعث فضا میں آلودگی بڑھ رہی ہے جس سے دنیا کا عمومی درجۂ حرارت متاثر ہورہا ہے۔ فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج کو روکا جاسکتا ہے، لیکن اس کے لیے سیاسی سوجھ بوجھ کی ضرورت ہے، مثلاً اگر بڑے ترقی یافتہ ممالک امریکہ، چین، بھارت ، فرانس اور برطانیہ اپنے کارخانوں کی پیداوار کو جدید ٹیکنالوجی سے منسلک کردیں یعنی گرین ٹیکنالوجی کو زیادہ استعمال میں لائیں تو کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج کم سے کم ہوسکتا ہے اور بہت جلد فضائی آلودگی میں کمی واقع ہوسکتی ہے اور کرۂ ارض کا عموعی درجہ حرارت بھی کم ہوسکتا ہے۔ جب تک ایسے اقدامات نہیں کیے جائیں گے موسمی تبدیلیاں ہوتی رہیں گی اور درجہ حرارت بڑھتا رہے گا، جیسے کراچی سمیت پاکستان کے دوسرے علاقوں میں ہوا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج کے علاوہ دوسری کئی گیسوں کی وجہ سے بھی زمین کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے۔
فضائی آلودگی کم کرنے کی بڑی ذمہ داری امیر ممالک پر عائد ہوتی ہے جو اپنا لائف اسٹائل بدلنے کو تیار نہیں اور ایسے ذرائع پیداوار استعمال میں لا رہے ہیں جو فضائی آلودگی کا سبب بن رہے ہیں۔ امیر اور غریب ممالک کے درمیان آمدنیوں کے فرق کے باعث رہن سہن کے انداز نے بھی موسمی حالات کو متاثر کیا ہے۔ مثال کے طورپر دنیا کی 18فیصد آبادی بجلی کی سہولت سے محروم ہے، کھانا پکانے کے لیے گوبر استعمال کیا جاتا ہے جو بعد میں فضائی آلودگی کا سبب بن رہا ہے۔ جدید دور میں جب سے کوئلے کی جگہ بجلی پیدا کرنے کے لیے خام تیل اور گیس کا استعمال عام ہوا، فضائی آلودگی بڑھنے لگی اور اس کے ساتھ فضا کا درجہ حرارت بھی۔ اگر ہم خام تیل کا استعمال کم کردیں اور اس کے بجائے انرجی کے متبادل ذرائع استعمال میں لائیں تو بہت حد تک فضائی آلودگی پر قا بو پایاجاسکتا ہے۔ اس وقت بہت سے ممالک جن میں چین اور بھارت پیش پیش ہیں، کوئلے سے بجلی پیدا کر رہے ہیں، پاکستان بھی اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس دوڑ میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ کوئلہ کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے اور موسمی تغیر سے تعلق رکھنے والے سائنس دان اس کے استعمال پر اعتراض کرتے ہوئے ان ممالک کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ کوئلے کی جگہ دوسری اشیا پر انحصار کریں تاکہ فضائی آلودگی کو کم سے کم سطح پر لایا جاسکے ورنہ فضا کا درجہ حرارت بڑھتا رہے گا جس کے اثرات موسم کی تبدیلیوں کے علاوہ انسانوں کی روزمرہ زندگیوں پر بھی پڑیں گے۔
اب تک موسمیاتی تبدیلی سے متعلق جتنی بھی عالمی کانفرنسیں ہوئی ہیں، ان میں سائنس دانوں کے علاوہ سیاسی حکومتوں کے سربراہان نے بھی شرکت کی اور گلوبل وارمنگ کے نتائج سے اتفاق کرتے ہوئے عہد کیا کہ دنیا کے تمام ممالک (امیراور غریب باہم مل کر) گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے سلسلے میں ایک دوسرے سے بھر پور تعاون کریں گے۔ سائنس دانوں نے تخمینہ لگایا ہے کہ اگر مختلف حکومتوں کے تعاون سے 100بلین ڈالر ماحولیات پرکام کرنے والے اداروں اور سائنس دانوں کو مل جاتے ہیں تو سائنس دان یقیناً ایسی ٹیکنالوجی دریافت کرلیں گے جو فضائی آلودگی کم کرنے میں معاون ثابت ہوسکے گی۔ سائنس دان یہ سمجھ رہے ہیں کہ اگر فضا میں درجۂ حرارت کو کم نہ کیا گیا تو آئندہ اس کے اثرات موسموں کی تبدیلی کے ساتھ انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ گلوبل وارمنگ کے سلسلے میں سائنس دانوں کے علاوہ سیاسی حکومتیں بھی بیدار ہوگئی ہیں بلکہ تشویش میں مبتلا ہیں اور چاہتی ہیں کہ فضائی آلودگی کو کم کرکے موسموں کو کسی حد تک کنٹرول کیا جائے تاکہ انسانی زندگی آسان ہواور کرۂ ارض کو تباہی سے بچایا جاسکے۔
کراچی میں جو کچھ ہوا وہ اپنی جگہ انتہائی افسوسناک اور دکھ بھری داستان ہے۔ شدید گرمی سے بچنے کے سلسلے میں صحت کے شعبے کی جانب سے فراہم کردہ معلومات بھی ناقص تھیں کیونکہ اس سے قبل کراچی میں اس نوعیت کی گرمی نہیں پڑی تھی؛ تاہم نجی اداروں کے علاوہ فوج اور رینجرز کے مختلف اداروں نے ہنگامی طور پرگرمی سے متاثر ہونے والوں کے لیے مراکز قائم کرکے اور انہیں ضروری طبی امداد فراہم کرکے بہت سے لوگوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچالیا ہے۔ ابھی تک گرمی کا زور نہیں ٹوٹا اور نہ ہی بارش ہوئی ہے۔ مساجد، گرجا گھروں اور مندروں میں بارش کے لیے دعائیں مانگی جا رہی ہیں۔ اللہ کی ذات سے ناامید نہیںہونا چاہیے، جلد ہی ابر رحمت گرمی اور حبس کی شدت کو کم کردے گا۔ موجودہ حکومت گلوبل وارمنگ کے سلسلے میں حالات سے آگہی رکھتی ہے۔اس سلسلے میں
پاکستان کے نامور اور ممتاز سائنس دان دن رات کام کررہے ہیں اور حکومت کو مشورہ بھی دے رہے ہیں کہ آئندہ متبادل انرجی کے ذرائع پیدا کرکے موسمی حالات کو قابو کیا جاسکتا ہے اور کون سے اقدامات کیے جاسکتے ہیں جن کی مدد سے کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج کو کم سے کم سطح پر لایا جا سکے گا۔ وفاقی وزیر برائے ماحولیات جناب مشاہد اللہ خان اس سلسلے میں خاصا فہم و ادراک رکھتے ہیں، انہیں اس ضمن میں پاکستان کے بہترین سائنس دانوں کی رہنمائی اور تعاون حاصل ہے، وہ یقیناً فضائی آلودگی کم کرنے سے متعلق سائنس دانوں کی سوچ، مشورے اورمعلومات کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک ایسی پالیسی مرتب کریں گے جو پاکستان کے لیے کارآمد ثابت ہوگی۔ دسمبر میں پیرس میں گلوبل وارمنگ کے سلسلے میں عالمی کانفرنس ہو رہی ہے جس میں پاکستان کا وفد شرکت کرے گا اور اپنی تجاویز سے عالمی کانفرنس کے شرکاء کو آگاہ کرے گا۔ ہر چند کہ پاکستان کا کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج کے سلسلے میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، اس کے باوجود پاکستان کی حکومت اور سائنس دان چاہتے ہیں کہ آئندہ گلوبل وارمنگ کے سلسلے میں عالمی سطح پر ایسی حکمت عملی تیار کی جائے جو فضائی آلودگی کو کم کرنے میں معاون ومددگار ثابت ہو۔ عالمی برادری نے پاکستان کی ان کاوشوں کو سراہا ہے۔ گلوبل وارمنگ اب امیر اور غریب ممالک کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ بن چکا ہے جس کا براہ راست تعلق انسانی زندگی اور خوشحالی کے علاوہ ہر قسم کی حیاتیات سے ہے جو مختلف تہذیبوں کو جنم دیتی اور ان کی وارث ہیں۔