افغان پارلیمنٹ پر حملہ اور بھارت کا کردار

22 جون 2015ء کو افغان پارلیمنٹ پر افغان طالبان نے اس وقت حملہ کیا جب وہاں ارکان پارلیمنٹ نئے وزیر دفاع کا چنائو کررہے تھے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق حملے میں تین افراد جاں بحق ہوئے جن میں ایک خاتون اور بچہ بھی شامل ہے۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد چالیس سے متجاوز بتائی گئی ہے۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے افغان پارلیمنٹ پر حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے اور دھمکی دی ہے کہ آئندہ بھی ایسے حملے کریں گے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اپنے بیان میں افغان پارلیمنٹ پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں مل کر دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ کارروائی کرتے رہیں گے۔ افغانستان میں اقوام متحدہ کے نمائندے نے بھی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد جمہوریت کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی حکومت اور اقوام متحدہ کے نمائندے کی جانب سے افغان پارلیمنٹ پر حملے کی مذمت کے باوجود کابل حکومت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر لگایا ہے اور دھمکی دی ہے کہ وہ اس معاملے کو اقوام متحدہ میں اٹھائیں گے۔ پاکستان کی حکومت اور عوام کو کابل حکومت کے اس رویے پر نہ صرف افسوس ہے بلکہ انہیں اس بات کا اندیشہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے افغان حکومت کے ساتھ سیاسی و معاشی تعلقات بہتر بنانے کے سلسلے میں جو اقدامات کیے ہیں، وہ کہیں ضائع نہ ہوجائیں کیونکہ اس بات سے اب کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جب سے اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی بھارت کا دورہ کرکے واپس آئے ہیں ان کی پاکستان کے بارے میں سوچ بدلتی نظر آ رہی ہے۔
میں نے اس ضمن میں گزشتہ دنوں ایک کالم میں لکھا تھا کہ اشرف غنی دوبارہ بھارت کی طرف مائل ہورہے ہیں۔ اس طرح وہ افغانستان میں امن کے امکانات کو خاصا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ افغان پارلیمنٹ پر حملے کے بعد کابل حکومت کا پاکستان پر الزام اس بات کا ثبوت ہے کہ اشرف غنی بھارت کے ایما پر اور اس کے مشورے سے اس طرح افغانستان کو ایک بار پھر آگ و خون کی طرف دھکیل رہے ہیں جس طرح کرزئی نے اپنے دس سالہ دور ے حکومت میں کیاتھا ۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت جب تک افغانستان میں موجود ہے وہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان اچھے تعلقات کا قیام ہونے نہیں دے گا جس کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ طول پکڑ سکتی ہے اور بعد میں وہ اس پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے؛ بلکہ ایسا ہوتا نظر بھی آرہا ہے۔ چنانچہ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اشرف غنی پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں پاکستان کے تعاون کو اہمت دیتے ہیں؟ اورکیا وہ اب بھی کرزائی کی طرح یہ سمجھ رہے ہیں کہ افغانستان میں افغان طالبان کی جانب سے جو جنگ ہو رہی ہے اس میں پاکستان ملوث ہے؟ اگر ان سوالات کے سلسلے میں ان کا جواب'' ہاں‘‘ میں ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ افغانستان میں امن قائم ہوسکے گا اور اگر افغانستان میں امن قائم نہیںہوگا تو اس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑسکتے ہیں۔ اشرف غنی صدر بننے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ افغانستان میں امن کی چابی پاکستان کے پاس ہے، اس لیے وہ اسلام آباد آئے اور عسکری قیادت سے مل کر افغان پاکستان تعلقات پر کھل کر بات کی، بعد میں وہ سیاسی قیادت سے بھی ملے تھے۔ اس بات چیت کے نتیجے میں انہیں اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ پاکستان، افغانستان میں حقیقی امن کا خواستگار ہے؛ چنانچہ جب وہ واپس کابل گئے تو انہوںنے افغان حکومت میںاپنے اتحادیوں کو ہر طرح سے قائل کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں ہر طرح سے تعاون کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ دونوں ملکوں کی خفیہ اداروں کے ساتھ مفاہمت کی ایک یادداشت (MOU) پر دستخط بھی ہوگئے تھے جس کا حامد کرزئی اور بھارت نے بہت برا منایا تھا اورکہا تھاکہ اس سمجھوتے کو منسوخ کردینا چاہیے۔ اس کے باوجود پاکستان اور افغان فورسز پاک افغان بارڈر پر دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ کارروائی کررہے ہیں، لیکن افغان پارلیمنٹ پر حملے کے بعد شاید ایسا تعاون ممکن نہ ہوسکے۔ جیسے میں نے بالائی سطورمیں لکھا، بھارت کسی بھی طرح پاکستان اور افغانستان کے مابین خوشگوار تعلقات کا قیام نہیں چاہتا۔ یہی وجہ ہے کہ افغان پارلیمنٹ پر حملے میں بغیر کسی ثبوت یا شہادت کے پاکستان کو ملوث کرنا دراصل بھارت کی کھلی سازش ہے جو اس خطے میں نہ صرف امن کا دشمن ہے بلکہ وہ اپنے انداز سے دہشت گردی کو پورے خطے میں پھیلانا چاہتا ہے۔ وہ پاکستان کی جانب سے افغانستان میں امن کے لیے کی جانے والی تمام کوششوں کو سبوتاژ کرنے پر تلاہوا ہے حالانکہ پاکستان واحد ملک ہے جو موجودہ افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان دوحہ (قطر) میں بات چیت کرانے کی کوشش کررہا ہے بلکہ امریکہ کے تعاون سے وہاں طالبان کا ایک سیاسی دفتر بھی قائم کرادیا ہے، لیکن ابھی تک با معنی بات چیت کا آغاز نہیں ہوا۔ ماضی میں بھی پاکستان نے اس وقت کی افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان جنگ ختم کرنے کے لیے اپنا تعاون پیش کیا تھا، لیکن حامد کرزئی جو اس وقت افغانستان کے صدر تھے۔ نے اس سلسلے میں کوئی تعاون نہیں کیا تھا اور معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا تھا۔ چین بھی افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت کرانا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں چینی حکام اور طالبان کے درمیان بیجنگ اور سنکیانگ میں بات چیت بھی ہوئی ہے جس کے نتائج جلد سامنے آنے والے ہیں۔ لیکن اشرف غنی کو افغانستان میںقیام امن اور پاکستان کے ساتھ دوستی اور تعاون کے سلسلے میں اس پالیسی کو یکسر ختم کرنا ہوگا جو حامد کرزئی نے بھارت کے مشورے اور ایما پر اپنائی تھی اور جس کی وجہ سے افغانستان میں بے گناہ لوگوں کا خون بہایا گیا۔ موجودہ افغان حکومت کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ پاکستان نے جس طرح افغان مہاجرین کی مددکی ہے اور انہیں کئی دہائیوں سے اپنا مہمان رکھا ہے اس کی مثال دنیا کا کوئی دوسرا ملک نہیں دے سکتا، لیکن پاکستان کی جانب سے افغان عوام کے لیے کیے جانے والے ایثار کو درخوراعتنانہیں سمجھا گیا۔ دوسری طرف بھارت اپنے مکروہ عزائم کے ساتھ افغانستان میں بیٹھ کر دو ہمسایہ ملکوں کو لڑا رہا ہے تاکہ پاکستان اور افغانستان دونوں میں امن قائم نہ ہوسکے اور دہشت گرد معصوم لوگوں کی زندگیوں سے یونہی کھلتے رہیں۔ اس اہم مسئلہ پر اشرف غنی کو سوچنا چاہیے کہ کیا وہ بھارت کے ذریعے افغانستان میں امن قائم کرسکتے ہیں؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں