وزیراعظم پاکستان جناب میاں محمد نواز شریف کا دنیا نیوز میں یہ بیان پڑھ کر کہ'' قومی خزانہ لوٹنے والوں کا احتساب ہونا چاہئے‘‘، مجھے ہنسی بھی آئی اور حیرت بھی ہوئی۔ ہنسی اس لئے آئی کہ ماضی اور حال کے حکمرانوں سے متعلق بھی عدالتوں میں کرپشن کے مقدمے چلے‘ اور اس وقت بھی چل رہے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہوئی کہ کرپٹ ،بدعنوان، قومی خزانہ لوٹنے والوں کا احتساب کون کرے گا؟ حکومت اس ضمن میں نیک نام نہیں ہے، نہ اب ہے اور نہ ماضی میں تھی۔ مزیدبرآں پاکستان کے با شعور عوام کا ایک حصہ اس بات پر متفق ہے کہ مسلم لیگ (ن) سازشی عناصر کے تعاون اور مدد سے 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کروا کے اقتدار میں آئی ہے، ورنہ سب کو معلوم ہے کہ عمران خان کی تحریک انصاف انتخابات جیت چکی تھی، چنانچہ کرپشن کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے بڑی ہمت کرکے 50بڑے سکینڈلز کی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے، جبکہ جسٹس مقبول نے اس ضمن میں بالکل صحیح سوال کیا ہے کہ ''کیا نیب بڑے فراڈیوں کی محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے؟‘‘ جسٹس جواد نے اس مسئلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ''کرپٹ لوگ تھوڑا حصہ دینے کے بعد نیب کی چھتری لے کر آزادانہ گھومتے پھرتے ہیں‘‘، اور جسٹس عظمت نے فرمایا کہ'' نیب نے سب سے زیادہ ملزمان چھوڑے ہیں‘‘۔ یہ تبصرے اور خیالات سپریم کورٹ کے لائق وفاضل جج صاحبان کے ہیں، جن کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ کن کن لوگوں نے کرپشن کے ذریعے ناجائز دولت کمائی ہے اور جن کے سکینڈلز اخبارات میں موجود ہیں اور حکومت کی سرپرستی میں ہونے والی کرپشن کو ظاہر کررہے ہیں۔ ان تبصروں کو پڑھ کر یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ کرپشن ہر سطح پر حکومت کرنے والوں اور ان کے کارندوں کا ایک مضبوط کلچر بن چکا ہے، جس کا فی الوقت کوئی توڑ نہیں ہے۔ جب کسی ادارے کا سربراہ ایک خفیہ ڈیل کے ذریعے ملازمت حاصل کرلیتا ہے تو اس سے کیا توقع کی جاسکتی ہے، کہ وہ پاکستان کے بد نام ترین مگر طاقتور کرپٹ عناصرکا احتساب کرسکے گا، جن کی زیادہ تعداد سیاست دانوں کی ہے اور جن کا سیاست میں آنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ کس طرح ملک کے وسائل کو اپنے لئے اپنے خاندان اور دوستوں کے لئے بے دردی سے لوٹا جائے۔ آج پاکستان اقتصادی طورپر جس گمبھیر صورتحال سے دوچار ہے بلکہ خاصا کمزور ہوگیا ہے، اس کی ایک بڑی اور ناقابل تردید حقیقت حکمران طبقے کی جانب سے کی جانے والی بے لگام کرپشن ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہی؛ تاہم یہ بات اپنی جگہ حقیقت پر مبنی ہے کہ جب سے قومی ایکشن پلان اور کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن شروع ہوا ہے اور سرکاری محکموں میں بد عنوان افسران کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی ہے، باقیوں پر خوف طاری ہوگیا ہے۔ کچھ عناصر ایسے بھی افسران تھے جنہوںنے روپے پیسے کے ذریعے اپنا اثر ورسوخ استعمال کیا اور ملک سے فرار ہونے میںکامیاب ہوگئے۔ ان میں ایک بد نام ترین نام منظور کاکا ہے، جس نے یہ بیان دیا ہے کہ وہ کروڑ روپے یومیہ بلاول ہائوس کو بھیجتا تھا۔ اس سلسلے میں بعض لوگوں کا یہ خیال صحیح ہے کہ جو لوگ ملک سے فرار ہوگئے ہیں‘ ان کی جائیداد ضبط کرلینی چاہئے، کیونکہ ان بدعنوان عناصر نے اس ملک میںجو جائیدادیں بنائی ہیں وہ سب عوام کا اور قوم کا پیسہ تھا جس پر انہوںنے دن دہاڑے ڈاکہ ڈالا تھا اور ملک کو اقتصادی طورپر تباہ وبرباد کرنے کی کوشش کی تھی،حیرت ہے کہ ملک میںہونے والی کرپشن کے سلسلے میں وزیراعظم صاحب احتساب کی بات کررہے ہیں، حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ پاکستان کی کرپٹ‘ چاپلوس اور عیار بیوروکریسی میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ ان تمام افراد کا احتساب کرسکے جو ماضی میں بے پناہ بدعنوانیوں میں ملوث پائے گئے
ہیں۔ 2008ء سے لے کر2013ء تک پی پی پی کی حکومت نے آصف علی زرداری کی قیادت میں ملک میںکرپشن کے ایسے ریکارڈ قائم کئے ہیں کہ الامان۔ بڑی حیرت ہوتی ہے کہ ایسے عناصر کی روک ٹوک کرنے والا کوئی نہیں تھا؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کرپٹ عناصر کو ملک سے فرار کر اکر کرپشن کو روکا جاسکتا ہے؟نیز اس بات کی کیا ضمانت دی جاسکتی ہے کہ یہ عناصر کچھ سال بعد حالات بدل جانے کے بعد پاکستان نہیں آئیں گے، اور دوبارہ لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ جاری نہیں کریں گے؟ سابق حکمرانوں کے علاوہ ان کی اتحادی جماعتوں نے بھی کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں جبکہ ان کی موجودہ صوبائی حکومت اسی ناجائز دھندے میں مصروف ہیں۔ سٹریٹ پاور کی دھمکیوں سے ماضی میں احتساب کے عمل کو روکا گیا تھا، اگر وزیراعظم صاحب کرپٹ عناصر کا بے رحمانہ احتساب کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو انہیں وزیرخزانہ جناب اسحاق ڈار سے یہ معلوم کرنا چاہئے کہ وہ ابھی تک بیرون ملک پاکستان کے عوام کا 200بلین ڈالر واپس کیوں نہیں لاسکے ہیں؟ حالانکہ وزیرخزانہ نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ لوٹی ہوئی اس قومی دولت کو جلد پاکستان لاکر دم لیں گے ۔
وزیراعظم صاحب کے احتساب سے متعلق بیان کی حقیقت اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے کہ وہ عوام میں اپنی ساکھ کو بحال کرنا چاہتے ہیں اور ان بیانات کے ذریعے حکومت کی ناقص کارکردگی پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ دوسال کے دوران ان کی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ حزب اختلاف سے نہیں بلکہ وفاقی بجٹ اور اکنامک سروے آف پاکستان کو پڑھ کر لگایا جاسکتا ہے۔ ان سرکاری دستاویزات میں بڑے واشگاف انداز میں کہا گیا ہے کہ ان دوسالوں میں کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس نے ترقی کی ہو یا اس میں ترقی کی کوئی رمق موجود ہو، یہاں تک کہ پاکستان کا زرعی شعبہ جس پر معیشت کی ترقی کا دارومدار ہے، اور جس کو ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے، اس کی بھی شرح نمو منفی رہی ہے، صرف غیر ملکی زرمبادلہ نے حکومت کی ''عزت‘‘ رکھی ہوئی ہے، جو ہمارے محنت کش پاکستانی بھائی حب الوطنی کے جذبے سے بھیجتے ہیں ، اور جن کی فلاح و بہبود کا پاکستانی حکومت کو نہ پہلے اور نہ اب کوئی خیال ہے۔ کرپشن سے متعلق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک قصہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ایک جگہ سے گذرتے ہوئے دیکھا کہ کچھ لوگ ایک عورت کو ہاتھوں میں پتھر لئے ہوئے سنگ سار کرنا چاہتے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وہاں رکے اور ان لوگوں سے کہا کہ پتھر وہی مارے جس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ پورا مجمع خاموش ہوگیااور پتھر پھینک کر چلے گئے۔ چنانچہ احتساب کا نعرہ وہ بلند کرے جس نے کرپشن نہ کی ہو،ورنہ بقول غالبؔ ع
دل کے بہلانے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے