گزشتہ دنوں وزیراعظم پاکستان ناروے اور روس کے دورے پر گئے۔ ناروے میں انہوں نے ایک تعلیمی کانفرنس اور سیمینار میں شرکت کی جس میں انہوںنے فرمایا کہ پاکستان تعلیم کی مد میں خاصی بڑی رقم خرچ کررہا ہے، نیز خواتین کی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی جارہی ہے، حالانکہ پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے سلسلے میں جو صورتحال ہے اس سے پوری دنیا واقف ہے۔ پاکستان اپنے بجٹ کا صرف 2فیصد تعلیم پر خرچ کر رہاہے ، یعنی اس خطے میں تعلیم کی مد میں بجٹ سب سے کم ہے۔یہی وجہ ہے کہ لاکھوں بچے اور بچیاں تعلیم سے محروم ہیں اور اگر تعلیم کی مد میں رقم کا اضافہ نہیںکیا جاتا تو جہالت کے اندھیرے مزید گہرے ہو جائیں گے جس کا فائدہ ان عناصر کو پہنچے گا جو جہالت سے فائدہ اٹھا کر عوام کا ذہنی وجذباتی استحصال کرتے ہیں۔ تعلیم سے متعلق کانفرنس اور سیمینار میں شرکت کرنے کے بعد جناب وزیراعظم روس پہنچے جہاں انہوں نے شنگھائی تعاون آرگنائزیشن کے اجلاس میں شرکت کی۔ اس تنظیم میں پاکستان اور بھارت کی حیثیت مبصرکی تھی جو اب رکنیت میں بدل گئی ہے۔ شنگھائی تنظیم کے اجلاس کے علاوہ یہاں برکس کابھی اجلاس ہوا۔ برکس تنظیم بھارت ، روس، برازیل، چین اور جنوبی افریقہ کے تعاون سے قائم کی گئی ہے، جس کا مقصد لاطینی امریکہ اور افریقہ میں سرمایہ کاری کے علاوہ مجموعی اقتصادی ترقی کو فروغ دینا ہے۔ پاکستان اس کا ممبر نہیں ہے۔ بھارت اپنی روایتی پاکستان دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو برکس کا ممبر بننے میں رکاوٹ ڈالتا رہتا ہے۔
شنگھائی تنظیم کی سائیڈ لائن پر بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اور میاں نواز شریف کی ملاقات ہوئی‘ روس کے صدر پیوٹن کی بھی یہی خواہش تھی کہ بھارت اور پاکستان کے وزیراعظم ملاقات کرکے جنوبی ایشیا میں کشیدگی کو کم کرتے ہوئے حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کریں۔ بھارت کے وزیراعظم سے ملاقات کرنے سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہی ہوا ہے لیکن بھارتی وزیراعظم سے یہ امید رکھنا کہ وہ ایسی ملاقاتوں میں مقبوضہ کشمیر سے متعلق بات چیت کریں گے ممکن نہیں ہے، لیکن ہوا اس کے برعکس۔ ہمارے وزیراعظم نے اس ملاقات میں کشمیر کا ذکر نہ کر کے کشمیری اور پاکستانی عوام کو حیران و پریشان کر دیا ہے۔ جہاں تک کشمیر کی بات ہے مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی تحریک دوبارہ زور پکڑ رہی ہے، خصوصیت کے ساتھ ان ظالمانہ قوانین کے خلاف جو بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کو دے رکھے ہیں ، ان اختیارات کے ذریعہ بھارتی فوج نے بے گناہ کشمیریوں کی وسیع پیمانے پر پکڑ دھکڑ شروع کررکھی ہے، بلکہ احتجاج کرنے والوں پر گولیاں برساکر انہیں قتل کیا جارہا ہے۔ سینکڑوں نوجوان کشمیریوں کو بھارتی فوج نے خاک وخون میں نہلادیا‘ لیکن اس کے باوجود کشمیریوں کا احتجاج جاری ہے، مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم پر وزیراعظم میاں نواز شریف کو بھارتی وزیراعظم سے احتجاج کرنا چاہیے تھا۔ پاکستان کی مقبوضہ کشمیر سے متعلق پالیسی بھی یہی ہے کہ پاکستان ان کی اخلاقی ، سیاسی وسفارتی مدد کرتا رہے گا۔ اگر میاں صاحب ہمت کرکے یہ سب کچھ کہہ دیتے تو اس طرح وہ کشمیری عوام کی نہ صرف اخلاقی مدد کرتے بلکہ عالمی سطح پر کشمیری عوام پر ہونے والے ظلم کو رکوانے میں معاون بھی ثابت ہوتے؛ تاہم وزیراعظم پاکستان نے اس ملاقات میں کشمیر کے مسئلہ کو نہ اٹھا کر
عوام کو مایوس کیا۔ انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بڑھانے اور پیپلز ٹو پیپلز تعلقات کو فروغ دینے پر زور دیا۔ ویسے بھی پاکستان کے عوام اس حقیقت سے واقف ہیں کہ حکمران خاندان کے عرصہ دراز سے بھارتی صنعت کاروں کے ساتھ تجارتی روابط بدستور قائم ہیں، چنانچہ اس متوقع ملاقات میں بھارت اور پاکستان کے درمیان کسی بڑے بریک تھرو کی امید کیسے کی جا سکتی تھی؟ دوسری جانب بھارت کی کوشش بھی یہی رہی ہے کہ پاکستان کے ساتھ جب بھی بات چیت ہو اس میں کشمیرکے مسئلہ پر سطحی طور پر بات کی جائے تاکہ کوئی نتیجہ نہ نکل سکے، یہی وجہ ہے کہ اس مسئلہ پر ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے، لیکن کشمیری عوام اس مسئلہ کا حل چاہتے ہیں اور جب یہاں کے عوام بھارتی تسلط کے علاوہ جبر‘ ظلم اور زیادتیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تو بھارتی فوج ان پر گولیاں بر سا کر انہیں خاموش کرنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن کشمیری عوام کا جذبۂ آزادی اور جذبۂ حریت میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ تحریک جاری ہے اور جاری رہے گی۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستانی اور بھارتی وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات کے سلسلے میں روسی صدر پیوٹن نے اہم کردار ادا کیا، کیونکہ روس کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آرہی ہے، روس پاکستان سے اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے حال ہی میں روس کا دورہ کیا‘ جہاں انہوںنے روس کے ساتھ دفاعی تعلقات کو فروغ دینے کے سلسلے میں بڑی تفصیل سے بات چیت کی تھی۔ میاں صاحب کے اس دورے سے روس کے ساتھ سیاسی ومعاشی تعلقات میں مزید بہتری آئی ہے اور اگر پاکستان کو برکس کارکن بنالیا جاتاتو اس طرح بھارت اور پاکستان کے درمیان بھی تعلقات میں بہتری کی امید پیدا ہوسکتی تھی اور اس فورم کے ذریعہ پاکستان اس خطے کی اقتصادی دوڑ میں شریک ہوکر اپنے لئے بھی اچھے امکانات پیدا کر سکتا تھا۔ جبکہ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات سے متعلق مزید کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے، چین اور پاکستان اس خطے میں استحکام کی علامت بن چکے ہیں اور دونوں ملک عالمی دہشت گردی کے خلاف ایک دوسرے کے ساتھ موثر تعاون کرتے ہوئے امن کا ایک نیا جہاں پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ فتح پاکستان اور چین کی ہوگی جس میں اب روس بھی شامل ہوچکا ہے، جو دہشت گردی کے خاتمے کیلئے عالمی برادری کے ساتھ مل کر پہلے ہی ایک اہم کردار ادا کررہا ہے۔