اس دفعہ کراچی میں عید انتہائی پُرسکون انداز میں منائی گئی ہے، ورنہ عید اور رمضان میں کراچی کے معصوم لوگوں کا بلاوجہ اور بلاجواز انتہائی بے دردی سے خون بہایا جاتا تھا جبکہ انتظامیہ اس گمبھیر صورتحال کے سامنے لاچار اور مفلوج نظر آتی تھی، لیکن ٹارگٹڈ آپریشن اور قومی ایکشن پلان کی وجہ سے اس شہر کے علاوہ پورے پاکستان میں خاصی تبدیلی وقوع پزیر ہورہی ہے۔ کراچی پولیس اور رینجرز کی مشترکہ کارروائیوں کی وجہ سے مطلوبہ ٹارگٹڈ کلرز کے علاوہ سماج دشمن عناصر کی بیخ کنی کی گئی ہے، جو اس وقت بھی جاری ہے۔ ''ضرب عضب‘‘ نے ان وطن دشمن عناصر کو نشانہ بنایا ہے جو گزشتہ دس سالوں سے غیر ملکی امداد کے بل بوتے پر مملکت خداداد کے مختلف علاقوں میں بم دھماکے کررہے تھے، جس میں اب تک ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں۔ ان عناصر نے اپنی مذموم کارروائیوں کے دوران مساجد اور امام بارگاہوں کے علاوہ سکولوں اور کالجوں کو بھی نہیں بخشا۔ اس ناگفتہ بہ صورتحال کے پیش نظر آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا جو کامیابی سے جاری ہے۔
کراچی کیونکہ پاکستان کا معاشی حب ہے، اس لئے پاکستان کی مجموعی ترقی کے پس منظر میں اس شہر کی بڑی اہمیت اور افادیت ہے۔ اگر یہ شہر تخریبی کارروائیوں کی وجہ سے خوف کا شکار ہوجاتا ہے یا پھر معاشی وتجارتی سرگرمیاں ماند پڑنے لگتی ہیں تو پاکستان کے ہر باشعور شہری کو اس صورتحال سے تشویش لاحق ہوجاتی ہے
اور عوام صوبائی اور وفاقی حکومت سے امید وابستہ کرنے لگتے ہیں کہ صورتحال کو فوری قابو میں لایا جائے گا‘ لیکن ایسا نہیں ہوسکاتھا۔ یہ شہر جس کو منی پاکستان کہتے ہیں، گزشتہ کئی دہائیوں سے جل رہا تھا اور تقریباً تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا تھا۔ پی پی پی کی وفاق میں حکومت کے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران اور موجودہ صوبائی حکومت کے دو سال میں کراچی میں قانون کو شاید ایک حکمت عملی کے تحت ختم کردیا گیا تھا، جس سے سماج دشمن عناصر نے بھر پور فائدہ اٹھایا تھا؛ چنانچہ ہر قسم کی انسان دشمن اور وطن دشمن کارروائیاں اپنے عروج پر تھیں بلکہ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت بھی ان میں شامل ہیں؛ تاہم موجودہ حکومت نے کراچی کی سول سوسائٹی ، تاجروں اور صنعت کاروں کے غیر معمولی احتجاج اوردبائو کے بعد یہ آپریشن شروع کیا‘ جس کو ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی اور اب بھی ہے۔ اگر یہ آپریشن شروع نہ کیا جاتا تو کراچی کے عوام اس مرتبہ بھی نہ تو پُرسکون انداز میں رمضان شریف کا بابرکت مہینہ روزے رکھتے اور عبادت کرتے گزار سکتے اور نہ ہی عید کی خوشیاں اپنے پیاروں کے ساتھ منا سکتے۔ امن کی بہتر صورتحال کے پیش نظر کراچی اور اس
کے مضافات میں عید کی ستر ارب روپے سے زائد کی شاپنگ ہوئی ہے، جو اپنی جگہ ایک ریکارڈ ہے۔ اگر شہر میں غیر معمولی حفاظتی انتظامات نہ ہوتے تو کراچی کے عوام اتنے اطمینان سے اوربھر پور انداز میں شاپنگ نہیں کرسکتے تھے۔ اس کا سہرا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جاتا ہے جو اپنی جانوں پر کھیل کر سماج دشمن عناصر کو پکڑرہے ہیں اور انہیں ان کے انجام تک پہنچا رہے ہیں۔
ماضی میں کراچی میں امن وامان اور دہشت گردی کے حوالے سے جو کچھ بھی ہوا ہے، اس کا تجزیہ کرتے ہوئے سابق صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ اس میں سندھ کی تین بڑی سیاسی جماعتیں ایم کیو ایم ، پی پی پی اور اے این پی شامل تھیں۔ انہی کی منصوبہ بندی کی وجہ سے کراچی کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی، لیکن انہیں اس میں کامیابی نہیں ہوسکی۔ انہوںنے مزید کہا کہ رینجرز اچھا کام کررہی ہے، اور اس نے کراچی میں سماج دشمن عناصر کو بلا امتیاز گرفتار کرکے امن کے قیام کو یقینی بنایا ہے۔ پی پی پی ماضی سے اپنا دامن چھڑانا چاہتی ہے، اس لئے وہ اب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون بھی کررہی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ رینجرز کو کراچی میں مزید ایک سال تک کے لئے تعیناتی کا حکم نامہ جاری کردیا گیا ہے۔ اے این پی بڑی خاموشی سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کررہی ہے، جس سے کراچی کے صحافی بخوبی واقف ہیں۔ ایم کیو ایم قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کرنے یا نہ کرنے کے سلسلے میں کنفیوژن کا شکار ہے۔ تاہم الطاف حسین نے یہ ضرور کہا ہے کہ انہیں پی پی پی کے شریک چیئرمین نے دھوکہ دیا ہے۔ غالباً الطاف حسین آصف علی زرداری کا یہ جملہ بھول گئے تھے جو وہ اکثر دہرایا کرتے ہیں کہ ''سیاست میں نہ کوئی دائمی دوست ہوتا ہے اور نہ کوئی دشمن‘‘۔ آصف علی زرداری ہر وہ کام کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں جس میں ان کا ذاتی مفاد ہو چاہے ملک کے ساتھ جو کچھ بھی ہوجائے۔
بہر حال کراچی میں امن و امان کے حوالے سے صورتحال بہتر ہوتی جارہی ہے، اور نظر بھی آرہی ہے۔ کراچی میں امن کا قیام سب کے، خصوصیت کے ساتھ پاکستان کے عوام کے وسیع تر مفاد میں ہے، جو مملکت خداداد کو معاشی ،سماجی اور فوجی اعتبار سے ایک طاقتور ملک کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ماضی کی حکومتوں نے اس ملک کے ساتھ جو کچھ بھی کیا تھا، اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے ہم سب کو آگے کی طرف دیکھنا اور بڑھنا چاہئے۔ اگر پاکستان میں معاشی ترقی کے حوالے سے حالات اچھے ہو جائیں‘ جس کی کوشش کی جارہی ہے، تو ہمارے نوجوان کیوں اپنا ملک چھوڑ نا پسند کریں گے؟ موجودہ حکومت کے پاس ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح وبہبود کے سلسلے میں کوئی واضح منشور یا پروگرام نہیں ہے۔ دوسال گذر جانے کے بعد بھی معاشی ترقی کاگراف اونچا نہیں ہورہا، بیرونی قرضوں کے ذریعہ مملکت کا کاروبار چلایا جارہا ہے اور پاکستانی بینکوں سے بھی بھاری قرضہ لیا جارہا ہے۔ قرض کی مے پینے کے باوجود وزیراعظم صاحب کے ظاہری ٹھاٹھ باٹھ میں کوئی کمی نہیں آئی۔ وہ عید کا تہوار اپنے ملک میں منانے کی بجائے سعودی عرب میں منانا پسند کرتے ہیں، جہاں ان کے کاروباری مفادات ہیں اور جن کے ذریعہ وہ امریکہ بہادر کے ساتھ اپنے روابط کو مضبوط کرنے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود وہ ایک ناکام وزیراعظم ثابت ہوئے ہیں‘ جن کی حکومت ہرمحاذ پر ناکامی سے دوچار ہے ، جبکہ کرپشن کرنے کا میثاق بکھرتا ہوا نظر آرہا ہے اور اس کا سہرا ضربِ عضب کے سر جاتا ہے۔