سٹیٹ بینک کی مالیاتی پالیسی کا جائزہ

گورنر سٹیٹ بینک نے مالیاتی (زری) پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ملک کی معیشت میں بہتری آرہی ہے، باالفاظ دیگر معاشی اشاریے بہتر ہوئے ہیں، اس میںکسی حد تک سچائی ہے ، لیکن مکمل نہیں۔پاکستان کی معیشت کی شرح نمو چار فیصد سے زیادہ نہیں؛ جبکہ برآمدات مسلسل گھٹ رہی ہیں۔ اکانومی کو جو سہارا ملا ہوا ہے وہ غیر ملکی زرمبادلہ کی وجہ سے ہے جس کا حجم اٹھارہ ارب ڈالر کے قریب پہنچ چکا ہے۔ غالباً پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ زرمبادلہ کے ذخائر اس حد تک پہنچے ہیں‘ اس کی وجہ سے پاکستان کو عالمی ، معاشی محاذ پر کئی سہولتیں حاصل ہوئی ہیں؛ تاہم ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث ترقی پذیر ملکوں کو‘ جن میں پاکستان بھی شامل ہے، خاصا فائدہ ہوا ہے۔ ایران کے خلاف اقوام متحدہ، امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے پابندیاں اٹھ جانے کے بعد جب اس کا تیل عالمی منڈی میں آئے گا تو قیمتوں میںمزید کمی ہوگی‘ اس طرح غریب ممالک کو مزید فائدہ ملے گا، اور ان کی معیشتوںمیں بہتری آئے گی۔ پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے عام آدمی کی قوت خرید میںاضافہ ہواہے؛ تاہم محتاط اندازے کے مطابق اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کوئی خاص کمی نہیں ہوئی بلکہ حالیہ رمضان اور عید کے دوران منافع خوروں نے عوام سے مختلف اشیا کے منہ مانگے دام وصول کئے۔ دراصل قیمتوں میں کمی کا 
تعلق براہ راست پیداوار سے ہے، زرعی شعبے میں خاطر خواہ ترقی نہ ہونے کے سبب اور پیداوار میںنمایاں کمی ہونے کی وجہ سے روزمرہ کی اشیائے خورونوش پر اس کے براہ راست اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس شعبے میں مہنگائی میں کمی نہیں ہوئی۔ زرعی شعبہ پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے لیکن اس کی ترقی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جا رہی۔ اس شعبے کی ترقی کے لیے جدید ٹیکنالوجی متعارف کرانے کی ضرورت ہے‘ جیسا کہ ہمارے پڑوسی ممالک میں دیکھنے میں آیا ہے۔ زرعی شعبے کے علاوہ صنعتی شعبہ بھی روبہ زوال ہے اور اس کی بڑی وجہ توانائی کی قلت ہے۔ گزشتہ دوسال کے دوران حکومت نے توانائی کی قلت دور کرنے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں وہ ناکافی ہیں۔ بلکہ بعض منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ مثال کے طورپر بلوچستان میں گڈ انی کے مقام پر کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے ! اگرچہ سٹیٹ بینک کا براہ راست ان منصوبوں سے کوئی تعلق نہیں، لیکن جس طرح حکومت بینکوں اور مالیاتی اداروں سے ادھار روپیہ لے رہی ہے، اس کے بارے میں تو سٹیٹ بینک ہی پوچھ سکتا ہے؟ محض بجٹ کا خسارہ پورا کرنے اور آئی ایم ایف سے مزیدقرضہ لینے کے لئے یہ 
تمام طریقے ماضی میں بھی اختیار کئے جاچکے ہیں، جن کے باعث ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے، تو دوسری طرف معیشت کی شرح نمو میں بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ اصولاً بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر معیشت کی شرح نمو کم از کم آٹھ فیصد ہونی چاہئے تاکہ آبادی کی معاشی و سماجی ضروریات پوری کی جاسکیں، گزشتہ دس برسوں کے دوران غربت بڑھی ہے۔ اسی طرح بے روزگاری کی شرح بھی تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے کوئی واضح منصوبہ بندی نہیں۔ بدانتظامی (بیڈگورننس) کی وجہ سے عوام کا سیاست دانوں پر اعتماد اُٹھ چکا ہے، سیاسی قیادت کے مقابلے میں عسکری قیادت میں ذمہ داری کا زیادہ احساس نظر آرہا ہے، جو ہر محاذ پر پاکستان کی سلامتی اور سالمیت کی جنگ لڑرہی ہے، فوج کی عوامی خدمات کا اندازہ حالیہ سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں میں مصیبت زدگان کی امدادی کارروائیوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ 
سٹیٹ بینک کی رپورٹ میںیہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ غیر ملکی سرمایہ پاکستان نہیں آیا‘ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں بے لگام کرپشن کی داستانوں نے ترقی یافتہ ممالک کے سرمایہ کاروں کو محتاط کردیا ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ کرپشن کی وجہ سے ان کا سرمایہ محفوظ نہیں ہوگا۔ خصوصیت کے ساتھ گزشتہ حکومت کے پانچ سالوں کے دوران ہر سطح پر جو کرپشن ہوئی، اس نے بیرونی ممالک میں ملکی امیج کو بہت زیادہ مجروح ومتاثر کیا۔ جس کا ازالہ ابھی تک نہیںہوسکا، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ موجودہ حکومت نے پچھلی حکومت کے ساتھ ''مفاہمت‘‘ کی سیاست کرتے ہوئے ملک کے مفادات کو دائو پر لگا دیا، بیشتر ادارے نا اہل افراد کی سربراہی میں تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے تھے۔ دراصل غیر ملکی سرمایہ کار اُن ملکوں کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں جہاں ان کا سرمایہ محفوظ ہو اور کرپشن نہ ہو۔ بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک میں شامل ہوچکا ہے جہاں غیر ملکی سرمایہ نہیں آیا اورنہ ہی ٹیکنالوجی ! گورنر سٹیٹ بینک نے اس پس منظر میں صحیح کہا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کے لئے محنت کرنا ہوگی، لیکن کون کرے گا؟ پاکستان کی سفارت کاری انتہائی کمزور ہے اور جدید تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ دو سال گزر جانے کے بعدبھی وزیر خارجہ مقرر نہیں کیا گیا۔ جہاں مملکت کا کاروبار پسند اور نا پسند کی بنیاد پر چلایاجارہا ہو، اور وزیراعظم کے سامنے خوشامدیوں کی لمبی قطار لگی ہو، وہاں نہ تو میرٹ ہوگا اور نہ ہی ذہین افراد کو مملکت کی خدمت کرنے کا موقع مل سکے گا۔ یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا؛ تاآنکہ کوئی قدآور اور جرأت مند شخصیت سامنے آئے جو موجودہ استحصالی، فرسودہ ، بے سمت اور تکلیف دہ معاشی و سماجی نظام کو اکھاڑ پھینکے‘ مگر کیا ایسا ممکن ہے ؟ موجو دہ حالات میں سٹیٹ بینک کی رپورٹ میں بہت کچھ کہا گیا ہے، لیکن حالات کے سدھار کی تمام چابیاں حکومت وقت کے پاس ہوتی ہیں جو تاحال روز مرہ کی بنیاد پر مملکت خداداد کا نظم و نسق چلا رہی ہے۔ سیاسی قیادت کے پاس ملائشیا کے مہاتیر محمد یا پھر سنگاپور کے لی کوان جیسا وژن نہیں۔آئندہ بھی سٹیٹ بینک کی رپورٹ آتی رہے گی، حکومت کو خبر دار کرتی رہے گی، سود کی شرح 6.5فیصد برقرار رکھنا اچھا فیصلہ ہے‘ مقامی سرمایہ کار اس سے فائدہ اٹھائیں گے، لیکن تبدیلی لانے کے سلسلے میں فغانِ درویش پر کون کان دھرتا ہے! ایک غیر ملکی سفارت کار نے کیا پتے کی بات کی۔ ''جب تک بامقصد تبدیلی لانے کے لیے زبردست سیاسی عزم نہیں ہوگا حالات کا جمود برقرار رہے گا اور اشرافیہ کا ایک چھوٹا سا طبقہ‘ ملک پر بلا روک ٹوک حکمرانی کرتا رہے گا‘‘۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں