ضلع گورداس پور میں دہشت گردی کے واقعہ کی پاکستان نے مذمت کی ہے اور ایک بار پھر کہا ہے کہ دہشت گردی اس خطے کا مشترکہ مسئلہ ہے ، لیکن بھارت کی سوچ اس سے بالکل مختلف ہے۔ بھارت پاکستان کے خلاف ازل سے کینہ رکھتا ہے اور اسے ایک ایجنڈے کے تحت کمزور کرنا چاہتاہے۔ جس طرح اس نے بنگلہ دیش کو ایک ''آزاد مملکت‘‘ بنانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا اور جس کا برملا اعتراف وزیراعظم بھارت نریندرمودی نے اپنے دورہ بنگلہ دیش میں کیا تھا۔ پہلے بھی با شعور پاکستانیوں کو علم تھا کہ شیخ مجیب الرحمن بھارت کے پے رول پر تھا۔چھ نکات کی بنیاد پر غریب اور ان پڑھ بنگالیوں کا جذباتی استحصال کرکے انہیں اپنا ہمنوا بنایا اور مغربی پاکستان کے خلاف نفرتوں کا طوفان کھڑا کرکے علیحدگی کی بنیاد ڈالی تھی، تاہم مشرقی پاکستان کے سلسلے میں خود ہمارا اپنا بھی قصور تھا اور ہمارے اس وقت کے حکمرانوں کا رویہ جس میں بیورو کریسی بھی شامل تھی،انتہائی نا مناسب تھا جس نے بنگالیوں کے دلوں میں مزید نفرت پیدا کی تھی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بھارت پاکستان کو کمزور کرنے اور دہشت گردوں کی مالی مدد کرنے سے نہ پہلے باز آیا ہے اور نہ اب، گورداس پور کے واقعہ میں ایک بار پھر بھارت کے وزراء اور ان کا میڈیا پاکستان کو ملوث کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ بھارتی صحافیوں کی گفتگو میںجو زہر بھرا ہو ا ہے، اسے بہ آسانی محسوس بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس انداز بیاں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں مزید کشیدگی اور دوری پیدا ہورہی ہے، جو اگر اسی طرح جاری وساری رہی تو مسلح تصادم میں بدل سکتی ہے۔ پاکستان کے با شعور عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ جب سے نریندرمودی اقتدار میں آیا ہے، اس کی خارجہ پالیسی میں پاکستان کے ساتھ اچھے ہمسائیگی قائم کرنے کا ایجنڈا نہیں ہے، بلکہ کشیدگی کو فروغ دینا مقصود ہے، یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف اور مودی کے درمیان روس کے شہر اوفا میں ملاقات اور پانچ نکات پر اتفاق رائے ہوجانے کے بعد ایک بار پھر ان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات باہمی کشیدگی کی طرف گامزن ہیں جو اپنی جگہ تشویش کا باعث ہے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کو ہوا دینے اور نفرتوں کو پھیلانے میں بھارتی میڈیا کا کردار انتہائی افسوسناک ہے۔ وہ پاکستان دشمنی میں اندھا ہوگیا ہے۔ گورداس پور واقعہ سے متعلق جو لغو اور بے بنیاد باتیں کی جارہی ہیں‘ ان کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ پاکستان کو ہر سطح پر بدنام کیا جائے اور عالمی برادری کو بتایاجائے کہ پاکستان اس خطے میں دہشت گردی کو پھیلارہا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ضرب عضب کی وجہ سے فاٹا میں بھارت نواز دہشت گردوں کا صفایا کیا جارہا ہے، جس پر بھارت واویلا مچا رہا ہے۔ اسے دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے سلسلے میں پاکستان کی حمایت کرنی چاہئے، لیکن بھارت اس کے بر عکس کام کررہا ہے۔ اس حقیقت سے ساری دنیا واقف ہے کہ وہ بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں کی مالی مدد اور انہیں جدید اسلحہ فراہم کرکے خانہ جنگی جیسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ اور وزیرداخلہ نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ بھارت کی طرف سے دہشت گردوں کی امداد کی وجہ سے بلوچستان میں امن قائم نہیں ہوسکا جس کا براہ راست ترقیاتی کاموں پر اثر پڑ رہا ہے۔ بھارت ان حقائق کو نہ تو رد کرسکتا ہے اور نہ ہی اس میںاتنی اخلاقی جرأت ہے کہ اس ''پراکسی وار‘‘ کو پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کے وسیع تر مفاد میں روکنے کی کوشش کرے۔
ایک تجزیہ نگار کے بقول گورداس پور کے واقعے میں بھارت کے اندر جاری آزادی کی تحریکوں کے کارندے شامل ہوسکتے ہیں، کشمیری حریت پسند اس میں شامل نہیں ہیں، کیونکہ ان کی جدوجہد مقبوضہ کشمیر کے اندر ہے جو جاری رہے گی۔ اب بھارتی میڈیا اس واقعہ کے پس منظرمیں بھارت کے عوام میں پاکستان کے خلاف جنونی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور بی جے پی کے انتہا پسند وزیراعظم کو مجبور کررہا ہے کہ پاکستان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ یہ سوچ بھارتی فوج کے سربراہ کی بھی ہے، جو اندر سے بی جے پی کا زبردست حمایتی ہے اور نریندرمودی کی طرح پاکستان کے خلاف مسلح تصادم کی سوچ رکھتا ہے بلکہ اس نے بعض مواقع پر اس کا اظہار بھی کیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے پاکستان کے خلاف زہرافشانی کرنے سے آئندہ کے لئے بھارت اور پاکستان کی انتہا پسند تنظیمیں شوسینا اور آر ایس ایس فائدہ اٹھائیں گی اور حالات کو پاکستان کے خلاف مسلح تصادم کی طرف دھکیلنے کی کوشش کریں گی۔ بھارتی میڈیا کو سوچنا چاہئے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ دونوں ملکوں کے لیے غیر معمولی تباہی و بربادی کا باعث بن سکتی ہے۔ مزید برآں کیونکہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں اس لئے اگر بھارت نے فوجی طاقت کے ذریعہ پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی تو پھر اس صورت میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو کون روک سکتا ہے؟ بھارتی حکمرانوں کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ پاکستان 1971ء کا نہیں بلکہ 2015ء کا پاکستان ہے جس کے عوام اور سیاست دان اپنے عسکری اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اگر خدانخواستہ بھارت کی جانب سے کسی قسم کی مہم جوئی ہوتی تو پاکستانی عوام اس کا بہادری اور قومی وحدت کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ جہاں تک پاکستانی میڈیا کا تعلق ہے اس کے لب و لہجہ میں بھارت کے خلاف و ہ نفرت نظر نہیں آتی جس کا اظہار بھارتی میڈیا کرتا ہے۔ یہ اچھی بات ہے لیکن بھارت پاکستانی میڈیا کے نرم لب ولہجہ کو ہماری کمزوری نہ سمجھے ، بلکہ پاکستانی میڈیا کے طرز عمل سے امن وبھائی چارے کا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرے جس میں دونوں ملکوں کے عوام کا فائدہ ہے اور جس کی اکثریت غربت و افلاس اور محرومی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ حقیقت میں پاکستان اور بھارت کے اصل مسائل ان کے عوام میں پائی جانے والی غربت اور تنگ دستی ہے جس کا ازالہ کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اسی طرز عمل میں ان دونوں ملکوں کی بھلائی ہے۔ بھارتی میڈیا کو پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے سے کسی قسم کا فائدہ حاصل نہیں ہوگا، بلکہ حالات مزید تلخی کی جانب جائیں گے جس کی وجہ سے انتہا پسندی مزید پھیلے گی، اور امن کاز کو نقصان پہنچے گا۔