سندھ میں تعلیم کے شعبے کی بربادی

سندھ کی حکومت تعلیم کے شعبے پر اکیس فیصد خرچ کرتی ہے، جبکہ وفاق کا تعلیم کے شعبے کی مد میں کل بجٹ 2 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ تعلیم کا فروغ موجودہ یا سابقہ حکومتوں کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس خطے میں سب سے زیادہ جہالت پاکستان میں پائی جاتی ہے، بلکہ مستند ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ حالیہ برسوں میں ناخواندگی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ان ذرائع کے مطابق آبادی کا 50 فیصد طبقہ تعلیم سے محروم ہے جبکہ خواتین کی تعلیم کے سلسلے میں صورت حال انتہائی مخدوش ہے۔ وفاق اور سندھ کی صوبائی حکومت کی نظر میں خواتین کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنامعاشرتی ضرورت نہیں ہے۔ سندھ کا محکمہ تعلیم کرپشن کے لحاظ سے نمبر ایک ہے۔ اس محکمے میں گھوسٹ ملازمین کے علاوہ گھوسٹ سکولوں کی تعدادتمام صوبوں سے زیادہ ہے۔ حال ہی میں اس محکمے میں کرپشن کے خلاف سندھ حکومت اور اپیکس کی طرف سے جو کارروائیاں کی گئی ہیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ محکمہ بدعنوان عناصر کی آماجگاہ بن گیا تھا۔ کئی افسران کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ اس وقت بھی سندھ کے محکمہ تعلیم میں کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔ مزید برآں صوبہ سندھ میں 60 فیصد سکول ایسے ہیں جہاں پینے کا صاف پانی، ٹوائلٹ اور کھیل کود کے لئے میدان موجود نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ تکلیف کا سامنا خواتین اور طالبات کوکرنا پڑتا ہے، جو اپنی ضروریات کے سلسلے میں محلے کے گھروں کا سہارا لیتی ہیں۔ یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ وہ واحد صوبہ ہے جو کرپشن کے علاوہ، شنید ہے، کہ کوئی ٹارگٹ پورا نہیںکرسکا ہے۔ اس ضمن میں حیرت کی بات یہ ہے کہ تعلیم کے شعبے میں رشوت لے کر ان افراد کو ملازم رکھا گیا ہے جن کا درس و تدریس سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔ ایک ایک امیدوار سے 2لاکھ سے لے کر 5لاکھ روپے رشوت لے کر نوکریاں دی گئی تھیں۔ یہ افراد برائے نام سکول آتے تھے اور چند لمحے گزارنے کے بعد کسی اور جگہ نوکری کرتے تھے۔ تعلیم کے شعبے میں سب سے زیادہ بربادی اندرون سندھ دیکھنے میں آئی ہے، جہاں سکولوں کو وڈیروں نے اپنے ڈیروں میں تبدیل کردیا ہے، اور اساتذہ کے ساتھ ذاتی ملازموں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اگر وہ وڈیرے کا حکم ماننے سے انکار کرنے کی جرأت کرتے ہیںتو سزا کے طورپر انہیں نوکریوں سے بے دخل کردیا جاتا ہے۔ 
کرپشن صرف اساتذہ کی ملازمتوں تک محدود نہیں، بلکہ سندھ ٹیکسٹ بورڈ میں بھی مبینہ طورپر زبردست بد عنوانیوں کا ارتکاب ہورہا ہے۔ نصابی کتابوںکی طباعت کا معیار نہ صرف ناقص ہے بلکہ اس کی مد میں غیر ملکی امداد سے حاصل ہونے والی رقم جیبوں میں چلی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ طلبا کے لئے جو کتابیں چھاپی جاتی ہیں ان کی تعداد اصل سے زیادہ دکھائی جاتی ہے، جبکہ اصل میں یہ تعداد بہت کم ہوتی ہے، جس کی وجہ سے طالب علموں کو کتابوں کی عدم دستیابی کی صورت میں بڑی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ابھی حال ہی میں سندھ ٹیکسٹ بورڈ کے بجٹ میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے، لیکن کتابوں کی چھپائی بدستور ناقص اور کتابوں کی تعداد میں کوئی اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔ اس کے بر عکس پنجاب ٹیکسٹ بورڈ اس مد میں ملنے والی رقم کا زیادہ حصہ ایمانداری سے خرچ کرتا ہے جبکہ درسی کتابوں کی چھپائی کے ساتھ کاغذ بھی معیاری ہوتا ہے۔ سندھ میں تعلیم کے شعبے میں غیر معمولی کرپشن کا آغاز پی پی پی کی حکومت کے آتے ہی شروع ہوگیا تھا، کیونکہ اس وقت حکومت کا ایجنڈا سندھ میں تعلیم کے شعبے کو ترقی 
دینا نہیں، بلکہ اس کے ذریعے مال کمانا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان پانچ سالوں کے دوران سندھ میں تعلیم کا شعبہ نہ صرف زبوں حالی کا شکار ہوا، بلکہ تعلیمی کلچر کے خاتمے کا سبب بھی بنا، اس ضمن میں حکومت کو نہ تو پہلے کسی قسم کی ندامت تھی اور نہ اب ہے۔ 2012ء کے دوران سب سے زیادہ تعلیم کے شعبے میں بدعنوانیاں ہوئی تھیں۔ نیب اس سلسلے میں تحقیقات کررہا ہے، اور جیسا کہ میں نے بالائی سطور میں لکھا ہے کہ بڑے پیمانے میں افسران کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ کچھ افسران ایسے ہیں جو گرفتاری کے خوف سے یا تو روپوش ہوگئے ہیں یا پھر بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ سندھ میں تعلیم کے شعبے کو برباد کرنے میں سیاست دانوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ سندھ کے ایک سابق وزیرتعلیم جن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بدعنوانیوں کے مرتکب پائے گئے ہیں، نے گرفتاری سے بچنے کے لئے عبوری ضمانت کرالی ہے۔ ان کی جگہ نثار کھوڑو نے لی تھی جن کا ریکارڈ بھی زیادہ اچھا نہیں تھا۔ اب اطلاعات کا محکمہ ان کے سپرد کیا گیا ہے۔ 
سندھ میں تعلیم کے شعبے میں تمام تر بدعنوانیوں کے باوجوداندرون سندھ کا ایک عام آدمی اپنے بچوں ، بچیوں کو تعلیم دلوانا چاہتا ہے ، لیکن اس کی تمنائوں اور آرزوؤں کی تکمیل میں غربت حائل ہو جاتی ہے۔ اس کے پاس سیاست دانوں کو رشوت کے طور پر دینے کے لئے پیسہ نہیں ہوتا۔ شہری سندھ میں تعلیم کے فروغ میں نجی شعبے نے اہم کردار ادا کیا ہے، لیکن نجی شعبے میں بھی بد عنوانیاں سامنے آرہی ہیں۔ نجی شعبے میںچلنے والے سکولوں میں فیس زیادہ لی جاتی ہے تو دوسری طرف درس و تدریس کا معیار گرا ہوا ہے۔ ٹیچروں کو کم تنخواہ دی جاتی ہے، جبکہ رجسٹر میں ان سے زیادہ تنخواہ لکھوائی جاتی ہے۔ اس کھلی بدعنوانی کا ابھی تک کسی قسم کا تدارک نہیں ہوا ہے، جبکہ ٹیچروں کا استحصال جاری ہے۔ صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ 2017-18ء تک پرائمری سکولوں میں بچوں کی تعداد 100فیصد تک کرلی جائے گی ،لیکن یہ ٹارگٹ پورا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا، بلکہ پرائمری سطح پر بچوں کے داخلے کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ دیہی سندھ میں غربت ہے جبکہ شہری سندھ میںبجٹ کی رقم کا نا مناسب استعمال اور کرپشن تعلیم کے فروغ میں رکاوٹ کا سبب بنا ہوا ہے؛ تاہم کراچی میں بعض ایسے افراد موجودہیں جو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بچوں اور بچیوں کو مفت تعلیم دے رہے ہیں،لیکن ایسے خدا ترس افراد کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ جب تک سندھ کے محکمہ تعلیم میں کرپشن ختم نہیں ہو گی اور بدعنوان عناصر کو نکالا نہیں جائے گا،'' تعلیم سب کے لئے‘‘ ایک خواب بن کر رہ جائے گی اور اگر یہ صورتحال جاری رہی تو سندھ تعلیم کے میدا ن میں تمام صوبوں سے پیچھے رہ جائے گا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں