بھارت کے انتہا پسند وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ دنوں متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا۔ گزشتہ 34 سال کے بعد‘ کسی بھارتی وزیراعظم کا یو اے ای کا یہ پہلا دورہ تھا۔ اس سے قبل مسز اندراگاندھی نے 1981ء میں تیل کی دولت سے مالا مال اس اہم خطے کا دورہ کیا تھا، مودی بظاہر یو اے ای کے ساتھ تجارتی وسرمایہ کاری کے روابط بڑھانے کی غرض سے آئے تھے،جس میں انہیں بڑی کامیابی ملی ہے، وہ ابوظہبی سے دو ارب ڈالر حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے‘ جو بھارت کے پسماندہ ذرائع حمل و نقل کو بہتر بنانے کے لئے استعمال ہوں گے، نیز انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو مزید بڑھانے کے سلسلے میں بھی بات چیت کی۔ اس وقت ان دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم 64بلین ڈالر ہے، اس طرح بھارت امریکہ اور چین کے بعد متحدہ عرب امارات کا تیسرا بڑاتجارتی پارٹنر ہے، متحدہ عرب امارات میں بھارتی باشندوں کی کل تعداد 26لاکھ کے قریب ہے جس میں زیادہ تروائٹ کالر پیشہ ور افراد ہیں، اپنے اس دورے میں مودی نے ابوظہبی کرکٹ اسٹیڈیم میں بھارتی باشندوں کی ایک بڑی تعداد سے خطاب بھی کیا، اس خطاب میں انہوںنے جہاں دہشت گردی کا بھی ذکر کیا وہیں انہوںنے دبے دبے الفاظ میں پاکستان کو بھی تنقید کا نشانہ بنانے کی کوشش کی؛ چونکہ انہیں احساس تھا کہ اگر انہوں نے دہشت گردی کے حوالے سے کھل کر پاکستان کا نام لیا تو متحدہ عرب امارات کے حکمران ناراض ہوجائیں گے اور ان کا دورہ بھی ناکام ہوجائے گا۔
مجھے حیرت اس بات کی ہے کہ محمد مبارک النہیان نے کیوں مودی کو اپنے ملک میں سیاسی جلسہ عام کرنے کی اجازت دی جبکہ انہیں اس بات کا ادراک تھا کہ مودی کی پاکستان سے متعلق کیا سوچ ہے؟ اور اس نے کس طرح بھارت میں مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کیاہوا ہے، خصوصیت کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں جہاں اس وقت بھارتی فوج اپنے غیر معمولی اختیارات کے ذریعہ کشمیری مسلمانوں کو قتل کررہی ہے اور نوجوانوں کو بغیر عدالت میں پیش کئے ہوئے جیلوں میں ڈال رہی ہے؟ اگر شیخ محمد کو مودی سے متعلق یہ معلومات حاصل تھیں تو انہیں یہ سیاسی جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے تھی، انہوںنے ایسا کرکے پاکستان کے عوام اور حکومت دونوں کو بہت زیادہ دکھ اور افسردہ کیا ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جس نے متحدہ عرب امارات کی فوج خارجہ پالیسی اور معیشت کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور اب بھی جب متحدہ عرب امارات کو اپنے تحفظ اور سلامتی کے حوالے سے ضرورت پڑتی ہے تو پاکستان ہی اس کی اخلاقی ، سیاسی اور فوجی مدد کرنے پر بلاتاخیر پہنچتا ہے۔ جیسا کہ پہلے لکھا کہ نریندرمودی متحدہ عرب امارات میں بظاہر تجارت کے فروغ اور سرمایہ کاری کے لئے گئے لیکن انہوں نے ابوظہبی کرکٹ سٹیڈیم میں جو تقریر کی ہے اس سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ وہ پاکستان کے ان ممالک سے تعلقات کو خراب کرنا چاہتے ہیں اور اس خطے کے ممالک میں پاکستان کے سیاسی و معاشی اثرات کم کرنے کی مذموم کوشش کر رہے تھے۔
نریندرمودی کے دورہ متحدہ عرب امارات کے پس منظر میں اب ہمیں اپنی خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کا ازسرنو جائزہ لینا چاہئے، ہماری سفارت کاری ہر لحاظ سے پسپائی کی طرف جارہی ہے، دوسال گزرجانے کے باوجود ابھی تک وزیرخارجہ مقرر نہیں ہو سکا۔ سرتاج عزیز عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں وہ زیادہ فعال ہوکر خارجہ پالیسی سے متعلق پاکستان کے مفادات کو مزید آگے بڑھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ وزارت خارجہ میں ہر چند کہ بعض فاضل اور اچھے افسران موجود ہیں۔ مگر وہ موجودہ حکومت کی نا اہلی کے سامنے عضومعطل بنے ہوئے ہیں ، ان افسران کو اس بات کا شدید احساس ہے کہ بھارت سفارت کاری میں بہت تیزی کے ساتھ پاکستان سے آگے جارہا ہے، اور پاکستان کو ہر محاذ پر تنہا کرنے کے سلسلے میں وہ تمام حربے استعمال کررہا ہے، جو ایک دشمن ملک ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر کر سکتا ہے، اگر ہماری خارجہ پالیسی کا بے سمت سفراس طرح جاری رہا تو وہ دن دور نہیں کہ ہم اپنے قریب ترین پڑوسیوں کو کھو دیں گے جن کے ساتھ ہم نے ماضی میں بڑے خلوص ، محبت، اسلامی جذبے سے سرشار ہوکر تعاون کیا تھا۔ دفاعی و معاشی امور میں اُن کی رہنمائی کرتے ہوئے انہیں پیروں پر کھڑا کیا تھا۔ مودی صرف متحدہ عرب امارات میں ہی اپنے سیاسی ومعاشی مفادات کو مزید پھیلانے یا تقویت دینے کی کوشش نہیں کررہے‘ بلکہ انہوں نے ایران کے ساتھ بھی اپنے مراسم کو مزید با ثمر اور مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلے میں بھارت نے حال ہی میں ایران کی بندرگاہ چاہ بہار کو ترقی دینے اور اُسے عالمی سطح کی بندرگاہ بنانے کے لئے تیس کروڑ ڈالر دینے سے متعلق ایک معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ بھارت چارہ بہار پورٹ کو ترقی دے کر دراصل گوادر پورٹ کی اہمیت اور افادیت کم کرنا چاہتا ہے۔ وہ چین کے لئے بھی مسائل کھڑا کرنا چاہتا ہے؛ تاکہ وہ بحرہند میں اپنی نیوی کے سلسلے میں کوئی کردار ادا نہ کرسکے۔ ہوسکتا ہے کہ ایران کی حکومت کا مقصد چارہ بہار پورٹ کو بھارت کے ساتھ مل کر ترقی دینے سے متعلق گوادر پورٹ کی اہمیت کو کم کرنا نہ ہو ،مگر حقائق اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ مزیدبراں بھارت نے جنوبی افغانستان میں گزشتہ دو برسوں کے دوران ایک سڑک تعمیر کی ہے جو افغانستان کو خلیج فارس سے ملا دے گی۔ اس طرح جب اس سڑک کے ذریعہ افغانستان کی ایران کے راستے سمندری تجارت شروع ہوگی تو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے لحاظ سے کراچی پورٹ کی اہمیت بھی خاصی متاثر ہوسکتی ہے۔
موجودہ حکومت کے سربراہ میاں نواز شریف شاید اس خطے میں بھارت کی سرگرمیوں اور پیچیدگیوں کو نہ سمجھتے ہوں، نیز ان کا جھکائو بھارت کی طرف اتنا زیادہ ہے کہ وہ کھل کر اس کے سامراجی عزائم اور ہتھکنڈوں کی مذمت کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اکثر اُسے نظرانداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مباداکہ بھارتی حکومت اور وہاں کے بھاری بھر کم تاجر ان سے ناراض ہو جائے۔ اس کے برعکس پاکستانی عوام اپنی سلامتی، تحفظ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صرف افواج پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں، جو ہر محاذ پر اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے، عوام کو معاشی طورپر فعال رکھنے کا حوصلہ دے رہی ہے، ورنہ سیاست دانوں کے کاموں سے کون آگاہ نہیں ہے، اور کون نہیں جانتا ہے کہ وہ پاکستان اور عوام کے ساتھ کس قدر مخلص ہیں۔ موجودہ سیاست معاشرے میں منفی سوچوں کو پھیلا رہی ہے، جس کا بھارت پورا پورا فائدہ اٹھارہا ہے، ذرا سوچئے!