ہاٹ یا کولڈ‘ ہم تیار ہیں!

بعض سیاسی رہنما ایسے ہوتے ہیں جو ووٹ لینے کے لئے اپنے مخالفین کے خلاف بڑے سخت جملے بولتے ہیں تاکہ عوام میں ان کی عزت اور بھرم ختم ہوجائے، بھارت میں بی جے پی کے رہنمائوں نے 2014ء کے عام انتخابات میں پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف بہت زہر اگلا۔ بھارت کے موجودہ وزیراعظم نے اپنے ہر سیاسی جلسے میںپاکستان کو زہریلی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ بھارتی قوم کو پاکستان کے خلاف جنگ پر اُکسا رہے ہیں، لیکن جیسا کہ اکثر معمول ہے کہ جب انتخابی مہم ختم ہوجاتی ہے تو زہریلی تقریریں بھی ختم ہوجاتی ہیں اور مسند اقتدار پر بیٹھنے کے بعد حقائق کی روشنی میں مملکت کا کاروبار چلانا پڑتا ہے‘ لیکن نریندر مودی نے ایسا نہیں کیا، ان کے اقتدار کو تقریباً ڈیڑھ سال ہوگئے ہیں، لیکن پاکستان کے بارے میں اُن کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ مذکور آئے دن پاکستان پر حملہ کرنے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں، جس کی حمایت ان کی فوج کا سربراہ دلیر سنگھ بھی کرتا رہتا ہے، ایل او سی اور ورکنگ بائونڈری پر بھارتی فوج کی جانب سے جو بلااشتعال گولہ باری ہوتی رہتی ہے وہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف عملی طورپر جارحانہ عزائم رکھتا ہے۔ 
چنانچہ اس پس منظر میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے یوم دفاع پر جی ایچ کیو کی تقریب سے اپنے مختصر مگر مدلل خطاب میں بھارت کو یہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ پاکستان بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہے، کولڈ سٹارٹ ہو یا ہاٹ سٹارٹ‘ پاکستان کی بہادر مسلح افواج اس کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے تیار ہیں۔ جنرل راحیل شریف کے اس پیغام کو ساری دنیا بالخصوص امریکہ اور یورپی یونین نے سنا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جنوبی ایشیا کے ان دوبڑے ملکوں کے درمیان تنائو کی جو فضا پیدا ہورہی ہے، وہ عالمی امن کے لئے زبردست خطرے کا باعث بن سکتی ہے؛ چنانچہ ترقی یافتہ ممالک نے جنگی فضا کو تحلیل کرنے کے سلسلے میں پس پردہ سفارتی کوششیں تیز کردی ہیں۔ ویسے بھی اب ساری دنیا جان چکی ہے کہ بھارت کا انتہا پسند وزیراعظم پاکستان اور مسلمان دشمنی سے مغلوب ہو کر جارحیت کی طرف پیش قدمی کررہا ہے، جو کسی بھی صورت دونوں ملکوں کے علاوہ اس خطے کے ممالک کے لئے بھی نیک شگون نہیں۔ اس لئے یہ کوششیں بھی ہورہی ہیں کہ کسی طرح ستمبر میں اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے باہر پاکستان اور بھارتی وزیراعظم کے درمیان بات چیت کرانے کی کوششیں کی جائیں۔ پاکستان اقوام متحدہ سمیت ان تمام ملکوں کی امن کی خاطر کی جانے والی کوششوں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اور ماضی کی طرح اب بھی بھارت کے ساتھ جامع مذاکرات کیلئے تیار ہے۔ 
جنرل راحیل شریف نے چھ ستمبر کے موقع پر جو تقریر کی تھی، اس کا مقصد بھارت کو جنگ کی دھمکی نہیں دینا تھا بلکہ بھارتی قیادت کو یہ بتانا مقصود تھا کہ پاکستان کو اتنا کمزور ملک نہ سمجھا جائے کہ بھارت اس پر حملہ کردے۔ بلکہ اس حقیقت کو اجاگر کرنا تھا کہ پاکستان کے عوام اور مسلح افواج بھارت کی طرف سے متوقع حملے کا معقول و مناسب جواب دینے کی طاقت اور صلاحیت رکھتی ہیں۔ 6ستمبر کے شہدا کی یاد مناتے ہوئے جنرل راحیل شریف کا یہ پیغام ضروری اور بر وقت تھا، کیونکہ بھارت ایک مخصوص حکمت عملی کے تحت پاکستان پر حملہ کرنے کا ارادہ 
کررہا ہے، اس کی ریشہ دوانیاں پاکستان کے اندر اور سرحدوں پر بڑھتی جارہی ہیں، اس صورت حال پر پاکستان کی سیاسی قیادت کی جانب سے کمزور اور ناتواں جوابی بیانات سے بھارت کا حوصلہ بڑھ رہا تھا، تو دوسری طرف بھارتی میڈیا بھارت کے اندر پاکستان کے خلاف انتہا پسندی پر مبنی خیالات کو فروغ دے کر جنگی فضا کی براہ راست معاونت کررہا تھا؛ چنانچہ جب جنرل راحیل شریف اور ان کے رفقاء نے اس صورتحال کا غیر جذباتی انداز میںجائزہ لیا اور تجزیہ کیا تو یہ فیصلہ کیا کہ چھ ستمبر کے موقع پر جنرل راحیل پاکستان کے خلاف بھارت کے جارحانہ انداز اور رویہ کا بھر پور جواب دیں گے۔ 
پاکستان بھارت کے ساتھ جنگ نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی پاکستان کی سیاسی یا فوجی قیادت نے بھارت کے خلاف جارحیت کا کوئی عندیہ دیا ہے بلکہ ہر موقع پر اس حقیقت کا برملااظہار کیا گیا ہے کہ اگر اس دفعہ بھارت نے پاکستان پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو یہ جنگ محدود نہیں ہوگی اور نہ ہی مختصر ہوگی بلکہ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے؛ چونکہ دونوں ملک ایٹمی طاقت ہیں اس لئے کوئی بھی فریق اپنی آزادی وسالمیت کو خطرے میں دیکھتے ہوئے ایٹمی ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے‘ اگر ایسا ہوا تو زبردست تباہی و بربادی ہوگی؛ لہٰذا دونوں ملکوں کے بہترین مفاد میں یہی ہے کہ جنگ کی فضا ختم کرنے کی کوششیں کی جائیں۔ جنگ کی دھمکیوں کے بجائے مذاکرات کے راستہ کو ہموار کرنا چاہئے‘ نیز بھارت کو یہ ناقابل تردید حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع مسئلہ ہے؛ بلکہ جیسا کہ راحیل شریف نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے جسے ہر بھارتی قیادت نے تسلیم کیا ہے۔ مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے ذریعہ کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کی موجودہ قیادت مسئلہ کو پرامن طریقے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کے بجائے فوج کے ذریعہ کشمیری عوام کی مرضی کو بزور شمشیر دبانا چاہتی ہے؛ تاہم پاکستان بھارت کی دھمکیوں کے باوجود اقوام متحدہ کی قراردادوں اور شملہ معاہدے کی روشنی میں مظلوم کشمیری عوام کی سفارتی ، اخلاقی اور سیاسی مدد کرتا رہے گا۔ بھارت‘ مقبوضہ کشمیر بارے پاکستان کی اس پالیسی سے بخوبی آگاہ ہے۔ جب تک بھارت کھلے دل، کھلے ذہن سے اس اہم مسئلہ پر مذاکرات نہیں کرے گا۔ بات آگے نہیںبڑھے گی۔ کشمیریوں کی بھارتی تسلط کے خلاف جدوجہد جاری وساری رہے گی۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں