بظاہر امریکہ، پاکستان کو یقین دہانی کراتا رہتا ہے کہ وہ اس کا مخلص دوست ہے اور پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں، جس میں پاکستان کی افواج اورعوام دونوں شامل ہیں، لیکن امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی گزشتہ پیرکو بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج سے سٹریٹیجک مذاکرات کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا جس میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ممبئی حملوں کے مجرموں کو کٹہرے میں لائے۔ یہ بھی کہا گیا کہ لشکر طیبہ، جیش محمد، القاعدہ اور حقانی نیٹ ورک جنوبی ایشیا میں امن واستحکام کے لئے بڑا خطرہ ہیں۔ اس اعلامیہ سے ظاہر ہو رہا ہے کہ امریکہ، پاکستان کے بارے میں بھارت کے خیالات کی ترجمانی کر رہا ہے۔ اس کے اس طریقہ کار سے پاکستان اور بھارت کے درمیان مزید تنائو پیدا ہوسکتا ہے۔ امریکہ کی یہ پالیسی جنوبی ایشیا میں قیام امن کی مکمل نفی کرتی ہے بلکہ کچھ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ امریکہ، بھارت اور پاکستان کے درمیان مفاہمت یا دوستی کرانے کے بجائے ان کی کشیدگی کو بڑھاوا دے رہا ہے، جو خود امریکہ کے مفاد میں ہے نہ جنوبی ایشیا کے ان دو بڑے ملکوں کے مفاد میں۔ مشترکہ اعلامیہ میں حیرت انگیز طور پر پاکستا ن کو تنقید کا ہدف بنایا گیا ہے جبکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان موجود بنیادی مسئلہ یعنی کشمیر کے سلسلے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔ اس وقت کشمیر جل رہا ہے، روزانہ کشمیری نوجوان شہید کئے جارہے ہیں، ان کے جائز مطالبات کے سلسلے میں بھارت کی قیادت نہ صرف خاموش ہے بلکہ وہ وادی میں ظلم وجبر جاری رکھے ہوئے ہے۔
امریکہ کی یہ حکمت عملی پاکستان ہی کے خلاف نہیں، اس کی بھارت نواز پالیسی سے چین بھی متاثر ہو رہا ہے۔ چینی صدر ژی جن پنگ نے جو اس وقت امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں، صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ''امریکہ، بھارت کو چین کے مقابلے میںکھڑا کرکے جنگی صورت حال پیدا کررہا ہے، جو دونوں ملکوں کے وسیع تر مفاد میں نہیں۔ چینی صدر کے اس بیان کی امریکی حکومت نے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کی بھارت کے ساتھ دوستی چین کے خلاف نہیں اور نہ ہی امریکہ جنگی فضا پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن امریکی حکومت کے اس بیان سے حقیقت چھپ نہیں سکتی۔ امریکہ کی نظر میں پاکستان اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی دوستی اور ہمہ جہت مراسم کسی بھی لحاظ سے خوشگوار صورت حال پیدا نہیں کر رہی۔ اس کی یہ دیرینہ آرزو ہے کہ پاکستان، بھارت کے ساتھ دوستی قائم کرکے چین کے خلاف تیارکیے جانے والے امریکی حصار میں شامل ہوکر اس کی معاشی اور سیاسی طاقت کو مجروح کرنے میں اس کے ساتھ تعاون کرے۔ ظاہر ہے، پاکستان ایسا کبھی نہیں کرے گا۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو یہ ادراک ہوچکا ہے کہ امریکہ کے مفادات جنوبی ایشیا میں بدل چکے ہیں۔ اس کے سامنے بھارت کی بڑی مارکیٹ ہے (300ملین کی مڈل کلاس) جہاں وہ جدید اسلحے کے علاوہ ہر قسم کی اشیا فروخت کر رہا ہے۔ وہ ہر سطح پر بھارت کی ہنوائی کر رہا ہے تاکہ اس کے سیاست دانوںکا دل اور ذہن جیت کر اس کو چین کے خلاف آئندہ کی کارروائی کے لئے تیار کر سکے۔ امریکہ کی اس پالیسی میں پاکستان ایک رکاوٹ بن رہا ہے جسے وہ مختلف بہانوں سے دبائو میں رکھنا چاہتا ہے تاکہ پاکستان معاشی یا سیاسی طورپر مضبوط نہ ہو سکے۔
دوسری طرف افغان حکومت کا پاکستان کی جانب بڑھتا ہوا معاندانہ رویہ اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ امریکہ اور بھارت اس ملک کے ذریعے بھی جنوبی ایشیا میں حالات خراب کرنے کے درپے ہیں؛ حالانکہ پاکستان، افغانستان کی موجودہ حکومت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہتا ہے، جس میں طالبان کے ساتھ مفاہمت کی کوششیں بھی شامل ہیں۔ لیکن پاکستان کی ان نیک خواہشات کا جواب افغان سرحدوں کی طرف سے مسلسل حملوں کی صورت میں دیا جارہا ہے، جس میں بڈھ بیر کا حالیہ حملہ بھی شامل ہے۔ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی وارداتوں میں ''را‘‘ کے علاوہ مبینہ طور پر افغانستان کی خفیہ ایجنسی بھی شامل ہے، جسے براہ راست سی آئی اے سے مدد مل رہی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے سرغنہ ملا فضل اللہ کے علاوہ پاکستان مخالف تمام دہشت گرد افغانستان میں موجود ہیں، جو وہاں سے تخریبی کارروائیاں کرکے پاکستان کو اندر سے عدم استحکام سے دوچار کر رہے ہیں۔ کیا امریکہ ان حقائق سے ناواقف ہے؟ یا پھر یہ سمجھنا چاہیے کہ امریکہ بذات خود جنوبی ایشیا میں امن کا قیام نہیں چاہتا اور قیام امن کی تمام کوششوں کو بھارت نواز پالیسیا ں اختیار کرکے سبوتاژ کررہا ہے؟ امریکی سیکرٹری خارجہ اور سشما سوراج کے مابین ملاقات اور بعد میں جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ کے بعد پاکستان کا یہ امید رکھنا کہ امریکہ اس کا دوست یا چارہ ساز ہے، حقائق سے رو گردانی کرنے کے مترادف ہوگا۔
دنیا اس بات کا برملا اعتراف کر رہی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان نے دی ہیں اور اب بھی دے رہا ہے۔ پاکستان کے اندر جو دہشت گردی ہو رہی ہے اس کے ڈانڈے بھی افغانستان اور بھارت سے ملتے ہیں جبکہ پاکستان کی بہادر افواج ان تخریب کاروں اور دہشت گردوں کے خلاف ہرممکن حد تک موثر کارروائی کررہی ہے۔ ادھر ''را‘‘ کے ایجنٹ ان کوششوں کو نا کام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گزشتہ دس برس سے پاکستان کے اندر قانون کی ڈھیلی پڑتی ہوئی گرفت کے باعث سماج دشمن عناصر غیر معمولی طورپر فعال ہوگئے تھے، انہیں بعض سیاسی اور انتہا پسند مذہبی گروہوں کی حمایت اور مدد بھی حاصل تھی؛ چنانچہ انہوں نے پورے معاشرے کو یرغمال بنا لیا تھا اور معاشی سرگرمیاں ماند پڑگئی تھیں۔ جنرل راحیل شریف کی عسکری قیادت سامنے آئی تو انہوںنے معاشرے میں قانون کی بالا دستی کو یقینی بنا کر عوام کو جینے کا نیا حوصلہ دیا، ان عناصر کو بے نقاب کیا جو سیاست اور مذہب کا لبادہ اوڑھ کر بھارت کے ایما پر پاکستان کو تباہ کرنے کی سازش کر رہے تھے۔
حقائق پر مبنی اس پس منظر کو پیش نظر رکھ کر امریکی قیادت کو سوچنا چاہیے کہ آیا وہ پاکستان پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگا کر اس کے لئے مزید پیچیدہ مسائل تو پیدا نہیں کر رہا اور وہ بھارت کی ہاں میں ہاں ملا کر اس خطے میں امن کے تمام امکانات کو مسدود تو نہیں کر رہا؟ امریکی پالیسی کا سب سے بڑا تضاد یہ ہے کہ وہ ایک طرف بھارت اور پاکستان کے درمیان اچھے تعلقات کے قیام کا خواہاں ہے اور دوسری جانب بھارت کی پاکستان مخالف پالیسوں کی کھل کر حمایت کرتا ہے، جو بعد میں ان دونوں ملکوں کے درمیان مزید کشیدگی کا باعث بنتی ہیں اور امن کی فاختہ لہولہان ہوکر گر پڑتی ہے۔