دہشت گردی کا عفریت

اگر ضرب عضب آپریشن شروع نہ کیاجاتا تو دہشت گردوں کے گروہ پاکستان کے مختلف شہروں میں چھپ کر مزید گھنائونی کارروائیاں کرنے سے باز نہیں آتے۔ آج پاکستان کے مختلف شہروں اور میں جو امن نظر آرہا ہے اور محسوس بھی کیا جارہا ہے تمام تر سہرا ضرب عضب آپریشن کو جاتا ہے، ورنہ وفاق اور صوبائی حکومتوں کی ناقص ‘کمزور اور نا مناسب کارکردگی کی وجہ سے جہاں لا ء اینڈ آرڈر کی صورتحال انتہائی خراب وخستہ ہوچکی تھی، وہیں ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سماج دشمن عناصر نے قتل وغارت گری اور لوٹ مار کا بازار گرم کررکھا تھا کہ عوام نجات کے لئے فوج کی جانب دیکھ رہے تھے، بلکہ پکار رہے تھے، چنانچہ عوام کے تعاون سے فوج نے ضرب عضب آپریشن شروع کرنے کا آغاز کیا اور اس عزم کے ساتھ کیا کہ پاکستان سے دہشت گردوں کا مکمل صفایا کردیا جائے گا، چنانچہ ضرب عضب کی وجہ سے پاکستان محفوظ ہوگیا ہے اور عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے، تاہم دہشت گردوں اور سماج دشمن عناصر کے خلاف یہ جنگ جاری رہے گی۔مکمل صفائی میں ابھی وقت لگے گا، کیونکہ ماضی کی حکومتوں نے دہشت گردوں اور قانون توڑنے والوں کے خلاف سنجیدگی سے کارروائی نہیں کی اور نہ ہی سوچا بلکہ حکومت کے بعض ذمہ دار ان کے ساتھ شامل ہوکر پاکستان کو اندر سے معاشی وسماجی طورپر کھوکھلا کررہے تھے۔ بعض غیر ملکی سفیروں کایہ تبصرہ درست معلوم ہوتا ہے کہ اگر پاکستان کی فوج ضرب عضب شروع نہ کرتی تو حالات زیادہ خراب ہو جاتے۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی قیادت نے کافی حد تک ضرب عضب آپریشن کا ساتھ دیا ہے، لیکن پاکستان کو بچانے اور پاکستان کے اندر چھپے ہوئے دشمنوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانے کا بیڑا پاکستان کی فوج کے ساتھ ساتھ دیگر اداروں نے بھی اٹھایا ہے مثلاً رینجرز اور پولیس جو دہشت گردوں کو پکڑ رہے ہیں اور اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کررہے ہیں۔ دراصل پاکستان کے سماج کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں ابھی تک جاگیرداروں اور وڈیروں کا سیاسی اثرورسوخ کم نہیں ہوا ہے‘ اب اس استحصالی طبقے کے ساتھ ابھرتا ہوا سرمایہ دار بھی شامل ہوگیا ہے، جو انہی کے انداز میں عوام پر اپنی حاکمیت کا رعب جمارہا ہے اور ہر اس کام میںحکومت کی حمایت کرتا اور مدد کرنے کو تیار ہوجاتا ہے، جو عوام یا ملک کے مفاد میں نہیں ہوتا ہے، بلکہ ان کے ذاتی مفاد میں ہوتا ہے۔ یہ تکلیف دہ احساس بھی عوام اور خواص کے ذہنوں میں جاگزیں ہو چکا ہے، کہ بالادست طبقہ ملک کے ساتھ مخلص نہیں ہے، اور نہ ہی پاکستان ابھی تک ایک مضبوط اور متحد قوم بن سکا ہے، یہ کام فوج کا نہیں ہے، بلکہ سیاست دانوں کا ہے جو سر سے پیر تک کرپشن میںڈوب چکے ہیں، لیکن اپنی اصلاح کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فوج کی دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک ذمہ داری بن چکی ہے کہ قانون کی بالادستی اور عوام کوہر قسم کا تحفظ کس طرح یقینی بنانے کی کوشش کرنی ہے۔اگر ہمارا سیاسی کلچر کرپشن سے پاک ہوتا اور پارلیمنٹ میںقانون سازی عوام کے امنگوں کے تحت کی جاتی تو فوج کو یہ آپریشن نہ کرنا پڑتااور نہ ہی تباہ کن کرپشن کے خلاف اقدامات اٹھانا پڑتے جو کہ اب اٹھانے پر مجبور ہے۔ 
چند ہفتے قبل پشاور کے قریب واقع پاکستان ائیر فورس کے قدیم ایئر بیس بڈھ بیر پر نام نہاد تنظیم کالعدم تحریک طالبان نے مل کر حملہ
کردیا تھا، جو ناکام رہا۔ ایئر فورس اور فوج کے بہادر نوجوانوں نے دہشت گردوں کے اس حملے کو نہ صرف ناکام بنادیا ، بلکہ تمام دہشت گردوں کو ہلاک بھی کردیا ہے۔بتایا گیا کہ اس حملے کی منصوبہ بندی میں افغانستان کی انٹیلی جنس بھی شامل تھی۔ ماضی میں اس گروہ نے آرمی پبلک اسکول میں حملہ کرکے 140کے قریب بچوں کو شہید کردیا تھا۔ سفاک بے رحم لوگوںکا یہ گروہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کرپاکستان کی سرحدوں کے قریب افغانستان میں روپوش ہے جسے افغان انٹیلی جنس کے علاوہ بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کی بھی مدد اور حمایت شامل ہے۔
بڈھ بیر ایئر بیس پر دہشت گردی کے حملے نے اس بات کو مزید تقویت پہنچائی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ختم نہیں ہوئی ، بلکہ جاری رہے گی جن جن ملکوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی گئی ہے، اسے ختم کرنے میں خاصا عرصہ لگا ہے۔ سری لنکا میں علیحدگی پسند تامل گوریلوں کے خلاف جنگ 25سال تک جاری رہی تب جاکر سری لنکن آرمی عوام کے تعاون سے ان عناصر پر قابو پانے میں کامیاب ہوئی ۔ تامل باغیوں کی بھارت مدد کررہاتھا بلکہ وہ سری لنکا کا شمالی حصہ جافنا بھار ت میں ضم کرنا چاہتا تھا ، لیکن آرزو پوری نہیں ہوسکی، اور راجیوگاندھی کے قتل کی صورت بھارت کو سری لنکا میں مداخلت کی
بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ پاکستانی سماج میں ہر سطح پر جو خرابی پیدا ہوئی ہے اس میں سیاست دانوں کے علاوہ نوکرشاہی بھی شامل تھی، مزیدبراں دہشت گردوں کو بعض جماعتوں کی مدد بھی شامل حال رہی تھی۔ اب بھی کچھ ایسا ہی محسوس کیا جارہا ہے، جسے ختم کرنے کے لئے مزید منصوبہ بندی اور باہمی تعاون کی ضرورت ہے جس کے لئے عوام کو ہمہ وقت تیار رہنا چاہئے، اور اپنے گرد وپیش پر نظر رکھنی چاہئے۔ پاکستان کے اندر عدم استحکام ہمارا پڑوسی ملک بھارت اور افغانستان بھی پیدا کررہا ہے، جس کے ثبوت امریکہ سمیت اقوام متحدہ کو دیئے جاچکے ہیں۔ اگر ان دونوں ملکوں کے قائدین نے پاکستان سے متعلق اپنا رویہ نہیں بدلا تو دہشت گردی کی لعنت کبھی ختم نہیں ہوسکے گی، بلکہ پورا خطہ بدستور اس کی لپیٹ میں رہے گا، جس کی وجہ سے امن نا پید ہوجائے گا۔ بڈھ بیر ایئر بیس پر دہشت گردی جیسی کارروائیوں سے افغان حکومت یا بھارتی حکومت اگریہ سمجھتی ہے کہ پاکستان مایوس ہوکر دہشت گردوں کے خلاف جنگ کو موخر کرلے گا تو یہ اس کی غلط فہمی ہے بلکہ یہ دہشت گردوں اور پاکستان دشمن قوتوں کے خلاف جنگ اب ایک نئے جذبے کے ساتھ پوری قوت سے جاری رہے گی۔ ملیحہ لودھی نے اقوام متحدہ میں بھارت کی پاکستان میں دہشت گردی کے ثبوت پیش کر دئیے ہیں۔ اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ ماضی کی روش چھوڑ دے اور بھارت کو صاف صاف ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اس کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ چلانے کا آغاز کرے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں