بلدیاتی انتخاب کا دوسرا مرحلہ بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوگیاہے، تاہم 76یونین کونسلوں میں انتخابات مؤخر کردیے گئے، جو تین ہفتوں کے بعد منعقد ہوںگے۔ دوسرے مرحلے میں دیہی سندھ میں پی پی پی کا پلڑا بھاری رہا‘ جبکہ شہری سندھ (میر پور خاص اور حیدرآباد) میں ایم کیو ایم واضح اکثریت کے ساتھ جیت گئی ہے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ میرپور اور حیدرآباد کا میئر ایم کیو ایم کا ہی ہوگا۔ دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات میں پی پی پی کو بدین ڈسٹرک میں خاصا سیٹ بیک ہوا ہے۔ اس علاقے میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے ساری سیٹیں جیت لی ہیں۔ ان کی اس فتح سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ ذوالفقار مرزا آئندہ بھی پی پی پی کو ہر سطح پر چیلنج کرتے رہیں گے۔ اس سلسلے میںانہوںنے ایک بار پھر اپنے اس موقف کو دہرایا ہے کہ اگر بلاول زرداری اپنے والد کو سیاسی طورپر چھوڑ کر الگ ہوکر ان کے ساتھ مل کر پاکستان میں سیاست کرنا چاہیں تو پی پی پی پور ے ملک میں دوبارہ فعال ہوسکتی ہے۔ ان کے مطابق بلاول زرداری جب تک اپنے والد آصف علی زرداری کے سائے میں سیاست کرتے رہیں گے‘ انہیں سند ھ کے دیہی علاقوں میں تو کامیابی حاصل ہوسکتی ہے (بڑے بھٹو اور محتر مہ بے نظیر بھٹو کی وجہ سے) لیکن پورے پاکستان میں ایسا ممکن نہیں ہوسکے گا۔ پنجاب میں پی پی پی کا ایک بار پھر صفایا ہوگیا ہے، جو اس بات کی غمازی کررہا ہے کہ پنجاب میں اب پی پی پی کبھی اپنا اثر و رسوخ دوبارہ قائم نہیں کرسکے گی۔ اس وقت پنجاب میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ ن اور عمران خان کی تحریک انصاف کا طوطی بول رہا ہے۔ بلدیاتی انتخاب کے دوسرے مرحلے میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کا پلڑا بھاری رہا، جبکہ خاصی بڑی تعداد میں آزاد امیدوار بھی جیتے ہیں۔ آزاد امیدواروں کا بڑی تعداد میں جیتنا اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ عوام سیاسی پارٹیوں سے بہت حد تک نالاں ہوچکے ہیں، کیونکہ سیاسی پارٹیاں انتخابات جیتنے کے بعد اپنے انتخابی منشور پر عمل پیرا نہیں ہوتی ہیں، بلکہ خالصتاً اپنے ذاتی اورگروہی مفاد کی روشنی میں کام کرتی ہیں، لیکن آزاد امیدواروں کے سلسلے میں یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ بعد میں یہ افراد کسی نہ کسی سیاسی پارٹی میں شامل ہوجاتے ہیں بلکہ ان میں ضم ہوکروہی کام کرنے لگتے ہیں، جن پر وہ تنقید کیا کرتے تھے۔
جیسا کہ میں نے بالائی سطور میں لکھا ہے کہ پنجاب یا پھر ملک کے دیگر صوبوں سے پی پی پی کے ووٹ بینک کا ختم ہوجانا اچھی بات نہیں ہے۔ ان افراد کو‘ جو ابھی تک پی پی پی میں شامل ہیں اور بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں‘ یہ سوچنا چاہئے کہ پی پی پی کے ساتھ ووٹرز کا ایسا رویہ کیوں ہورہا ہے؟ کیوں شہیدوں کی پارٹی عوام کی نگاہوں میں معتبر نہیں رہی، بلکہ صرف سندھ تک محدود ہوکر ایک علاقائی پارٹی میں تبدیل ہوچکی ہے، بلکہ سندھ میں بھی دیہی علاقوں تک جبکہ شہری سندھ میں ایم کیو ایم بہت حد تک اپنا ووٹ بینک قائم رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ مزید برآں پی پی پی کو پاکستانی میڈیا ابھی تک اس کے دور میں ہونے والی بے لگام کرپشن کی وجہ سے معاف نہیں کرسکا ہے، نیز اس پارٹی کا میڈیا کے ساتھ وہ تعلق قائم نہیں رہ سکا ‘ جو بے نظیر بھٹو یا ان کے والد کے دور میں تھا۔ میڈیا میں بعض افراد پی پی پی کی صرف ''زر‘‘ کی وجہ سے حمایت کررہے ہیں۔ اسی باعث عوام اس سے مزیددور ہورہے ہیں۔ اس مسئلہ پر پی پی پی کی قیادت کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ جہاں تک شہری سندھ کا تعلق ہے تو ایم کیو ایم تمام تر ''رکاوٹوں‘‘ کے باوجود اپنا ووٹ بینک اور سیاسی تشخص برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ میر پور خاص ، حیدرآباد اور کسی حد
تک سکھر میں ان کے امیدواروں کی کامیابیاں اس بات کی غمازی کررہی ہیں کہ یہ پارٹی شہری سندھ کے عوام میں ہنوز مقبول ہے۔ ایم کیو ایم نے اپنے خلاف ہونے والی ہر کارروائی کے کارڈ کو بڑی خوبصورتی سے استعمال کرکے سیاسی میدان میں اپنی حیثیت کو مستحکم رکھا ہوا ہے۔ بلدیاتی انتخاب کے تیسرے مرحلے میں (جس میں کراچی شامل ہے) ایم کیو ایم بڑی تندہی سے انتخابی مہم چلا رہی ہے۔ باخبر افراد کے تجزیے کے مطابق ایم کیو ایم کراچی میں بھی بھاری اکثریت سے جیت جائے گی، اور توقع ہے کہ دو کروڑ کے اس شہر کا آئندہ میئر اُنہی کا ہوگا۔ دوسری طرف کراچی میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے مابین انتخابی اتحاد تشکیل پاچکا ہے۔ جماعت اسلامی زمانہ بعید میں کراچی میں حکومت کررہی تھی، لیکن ایم کیو ایم کے وجود میں آنے کے بعد اس شہر کی سیاسی و ثقافتی صورتحال یکسر بدل گئی ہے، اب جماعت اسلامی کا وجود اتنا موثر نہیں رہا ، جیسا کہ ماضی میں تھا ۔ تحریک انصاف اس شہر میں کامیاب جلسے کرچکی ہے، آئندہ بھی وہ انتخاب سے قبل یہاں جلسہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ کراچی میں نوجوانوں کی ایک خاصی بڑی تعداد عمران خان کے ساتھ محبت و عقیدت رکھتی ہے، خصوصیت کے ساتھ پختون نوجوان!جماعت اسلامی اور
تحریک انصاف کے علاوہ سابق صدرپرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ بھی میدان میں ہے اور اے این پی بھی، لیکن اصل مقابلہ ایم کیو ایم‘ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے مابین ہی متوقع ہے۔ پی پی پی کراچی کے مضافاتی علاقوں میں کچھ سیٹیں جیتنے کی کوشش کرے گی، خصوصیت کے ساتھ لیاری اور ملیر میں۔ اس کے علاوہ لانڈھی اور دیگر ملحقہ علاقوں میں آفاق احمد کی ایم کیو ایم (حقیقی) خاصی سرگرم ہے اور اس علاقے میں انہیں خاصی سیٹیں مل سکتی ہیں۔ حال ہی میں بعض ٹی وی چینلزز پر آفاق احمد کے انٹر ویوز ٹیلی کاسٹ ہوئے تھے، جس کی کراچی کے بعض علاقوں میں خاصی پذیرائی دیکھنے میں آئی ہے۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ کراچی میں 5دسمبرکو ہونے والے انتخاب میں لڑائی جھگڑوں کا خاصا امکان موجود ہے، لیکن میرے خیال کے مطابق ایسا ممکن نہیں ہوسکے گا، کیونکہ کراچی میں فعال کوئی بھی سیاسی جماعت لڑائی جھگڑے کے موڈمیں نہیں ہے۔ رینجرزاور کراچی پولیس کراچی میں پر امن انتخاب کرانے کا تہیہ ، جبکہ تخریب کرنے والوں سے وہ بڑی سختی سے نمٹنے کا عہد کرچکی ہے، اس لئے کراچی میں بلدیاتی انتخاب پر امن انداز میں ہوں گے، جیسا کہ دوسرے مرحلے کے دوران ہوئے تھے، نیز کراچی کی تمام پارٹیاںخود بھی یہ چاہتی ہیں کہ انتخاب پر امن طریقے سے ہوں تاکہ عوام اطمینان کے ساتھ اپنا حق رائے دہی استعمال کرسکیں۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے ۔