ڈیوڈ کیمرون کی غلط سوچ

برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے فرانس میں ہونے والے دہشت گردوں کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اس واقعہ کو 2008ء میں ہونے والے ممبئی حملوں سے تشبیہ دے کر اس میں بالواسطہ پاکستان کو ملوث کرنے کی کوشش کی ہے؛ حالانکہ فرانس میں دہشت گردی کے حالیہ واقعہ میں خود فرانس کے باشندے (کم از کم تین) ملوث تھے۔ بعض شامی بھی تھے جو مہاجرین کے ساتھ شامل ہوکر پہلے بلجیم اور پھر فرانس میں داخل ہوئے۔ اس انسانیت سوز واقعے نے یورپ سمیت پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک اس افسوسناک واقعہ کی شدید مذمت کر رہے ہیں۔ داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کرلی ہے، لیکن تحقیق کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا کہ اس میں کتنی صداقت ہے۔ برطانوی وزیر اعظم نے ممبئی حملوں کو پیرس میں ہونے والی دہشت گردی سے ملا کر عالمی سطح، بالخصوص یورپ میں آباد مسلمانوں اور خصوصیت کے ساتھ پاکستانیوں کے لئے بے پناہ مسائل کھڑے کر دیے ہیں۔ پیرس میں، جہاں مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی ہے، مسلمانوں کو نفرت سے دیکھا جا رہا ہے۔ ان کے لیے کاروباری سرگرمیاں جاری رکھنا اور دفاتر میںکام کرنا ایک مشکل نفسیاتی مسئلہ بن گیا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم کو یہ بیان دینے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا کہ جنوبی ایشیا کے ان دونوں ملکوں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ انہیں اس امر کا اچھی طرح ادراک ہونا چاہیے تھا کہ ممبئی میں Non State Actors ملوث تھے، ان عناصر کو حکومت کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ لندن میں مقیم بعض باخبر پاکستانیوں نے کہا ہے کہ برطانوی وزیر اعظم نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی (جنہوں نے حال ہی میں برطانیہ کا سرکاری دورہ مکمل کیا ) کو خوش کرنے کے لئے یہ بیان داغا تھا۔ برطانوی وزیر اعظم کے بیان نے جہاں نریندر مودی کے پاکستان کے خلاف خیالات کو مزید تقویت پہنچائی، وہیں ایک بار پھر پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی بڑھ بھی سکتی ہے۔ بھارتی میڈیا ڈیوڈ کیمرون کے بیان کی تعریف کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ برطانیہ ممبئی واقعہ سے متعلق پاکستان پر دبائو ڈالے گا۔ 
برطانوی وزیر اعظم نے پیرس میں دہشت گردوں کے حملوں میں جس Coordination کا ذکر کیا ہے اس کے پس منظر میں انہوں نے انتہائی احمقانہ انداز میں ان حملوں کو ممبئی میں Coordinated حملوں سے ملانے کی کوشش کی ہے،حالانکہ عراق، لبنان اور مصر میں بھی ایسے حملے ہو چکے ہیں، بلکہ ہوتے رہتے ہیں، لیکن برطانوی وزیر اعظم نے ان کا حوالہ نہیں دیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم کو خوش کرنے کے لئے یورپ کے سیاسی قائدین کس حد تک جا سکتے ہیں۔ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان اچھے تعلقات ہیں۔ پاکستان کے سیاست دانوں نے وہاں اپنے گھر بنا رکھے ہیں، اور وہاں کے بینکوں میں ان کے لاکھوں پائونڈ جمع ہیں۔ یہ سب عوام کا پیسہ ہے جو پاکستانی سیاست دان اپنے اثر و رسوخ سے چُرا کر وہاں لے گئے۔ ایک بڑی تعداد میں پاکستانی کمیونٹی برطانیہ کے مختلف شہروں میں آباد ہے اور برطانوی اکانومی میں اپنا بھرپور حصہ ڈال رہی ہے۔ اس کے باوجود برطانوی وزیر اعظم نے اپنے بیان میں پاکستان کو ایک بار پھر بالواسطہ دہشت گردی میں ملوث کرنے کی کوشش کی، جو حقائق کے بالکل بر عکس ہے۔ 
دراصل ڈیوڈ کیمرون کی سوچ یورپ کے اکثر سیاست دانوں کی طرح ہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ہر سطح پر اپنے موقف کی کامیاب سفارت کاری کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یورپ سمیت امریکہ بھی پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں اور قربانیو ں کا نہ تو ادراک کر سکا ہے، اور نہ ہی اس نے اس ضمن میں پاکستان کی وہ مدد کی ہے جو کہ کرنا چاہئے تھی۔ اس کے برعکس اس نے پہلے بھی اور اب بھی پاکستان پر Do More کا دبائو ڈالا ہے۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کو برطانوی وزارت خارجہ سے ڈیوڈ کیمرون کے بیان سے متعلق بات چیت کرنی چاہئے اور اپنے تحفظات کا اظہار کرنا چاہئے تاکہ برطانوی حکومت کو یہ معلوم ہوکہ پاکستان کے عوام اوردیگر حلقوں نے برطانوی وزیر اعظم کے اس بیان کا کتنا بُرا منایا ہے اور اس بیان سے ان کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ 
فرانس میں دہشت گردی کے واقعات سے ان مہاجرین پر برا اثر پڑے گا جو اپنے ملکوں میں ہونے والی خانہ جنگی کی وجہ سے ہجرت کر رہے ہیں۔ یورپ اتنی بڑی تعداد میں آنے والے مہاجرین کو بادل نخواستہ بسا رہا ہے، لیکن اب یورپ ان خانماں بربادوں سے متعلق اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے گا، اس دہشت گردی کی وجہ سے فرانس کے عوام کی روزمرہ زندگی پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ پیرس کے علاوہ فرانس کے دیگر شہروں میں بھی خوف کی فضا طاری ہے۔ سڑکیں‘ ہوٹل اور تفریحی مقامات ویران پڑے ہیں۔ فرانس کی پولیس عوام کو گھروں تک محدود رہنے کا مشورہ دے رہی ہے۔ یہ صورتحال جلد تبدیل نہیں ہو گی کیونکہ دہشت گردی کا خطرہ ابھی تک موجود ہے، نیز اس کے اثرات فرانس کی معیشت پر پڑیں گے بلکہ فرانس کی بیرونی تجارت بھی خاصی متاثر ہو سکتی ہے؛ تاہم پاکستان فرانس کے عوام کے غم اور دکھ میں برابر کا شریک ہے، دہشت گرد انسانیت کے دشمن ہیں۔ پاکستان سے زیادہ دہشت گردی کے اثرات کو اور کون سا ملک محسوس کر سکتا ہے۔ پاکستان کے عوام اور فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں اور اب بھی دے رہے ہیں، لیکن فرانس کے واقعہ کو ممبئی کے واقعہ سے تشبیہ دے کر برطانوی وزیر اعظم نے بالواسطہ پاکستان کو ان معاملات میں ملوث کرنے کی کوشش کی ہے جو قابل افسوس ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں