آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا امریکہ کا پانچ روزہ دورہ مکمل ہوچکا ‘ امریکی انتظامیہ نے اُن کی زبردست پذیرائی کی۔ امریکی حکام نے اُن سے خطے کے متعلق تفصیلی بات چیت کی۔ جنرل صاحب نے تمام شکوک و شبہات کا تسلی بخش جواب دیا ہے۔ امریکہ کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک کو‘ جنہیں پاکستان کی معیشت اور سیاست سے دلچسپی ہے ، اس بات کا ادراک ہے کہ پاکستان میں فوج کا ادارہ ہی ملک کی سا لمیت اور استحکام کا ذمہ دار ہے، پاکستانی عوام کی بھی یہی سوچ ہے، اور وہ اپنی فوج سے والہانہ محبت بھی کرتے ہیں۔ خود امریکی بھی یہی سوچ رکھتے ہیں۔ دوسری طرف کچھ سیاست دانوں سے متعلق پاکستان کے اندر اور باہر یعنی عالمی سطح پر تصور انتہائی خراب اور مشکوک ہے ۔اس امیج کو تخلیق کرنے میں خود سیاست دانوں کا اپنا کردار ہے، جس کا نمایاں پہلو کرپشن اور بری حکمرانی ہے۔ مزید برآں گزشتہ پندرہ سالوں سے پاکستان دہشت گردی کا شکار چلا آ رہا ہے، جس کی وجہ سے جہاں پاکستان کی معیشت اور معاشرت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے، وہیں عالمی سطح پر پاکستان کا امیج بھی بری طرح متاثر ہوا تھا، سیاست دانوں نے جس کو بہتر بنانے کی کوشش نہیں کی۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں موجود تحریک طالبان کے دہشت گردوں نے غیر ملکی طاقتوں کے اسلحہ اور ان کی مالی مدد کے ذریعہ جس طرح پاکستان کے طول وعرض میں تباہی وبربادی پھیلائی ، اس کے بارے میں بھی جنرل راحیل شریف نے امریکی انتظامیہ کو آگاہ کیا ہے، تاہم پاکستان دشمن طاقتوں نے اس تاثر کو پھیلا نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ پاکستان دہشت گردوں کا مرکز بن چکا ہے۔ بھارت نے پاکستان سے متعلق اس تصور کو مزید نمک مرچ لگا کر پھیلا یا ہے، چنانچہ پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت نے کرائے کے ان قاتلوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا تھا، پہلے سوات میں اور بعد میں جنوبی وشمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسیوںمیں، جس کے مثبت نتائج نکل رہے ہیں،جبکہ دہشت گرد بھاگ کر افغانستان میں پناہ لے رہے ہیں۔ افغان حکومت ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے اُلٹا اُنہیں پاکستان کے سرحدی علاقوں پر حملہ کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
جنرل راحیل شریف نے اپنی ملاقات میںامریکی حکام، سیکرٹری خارجہ جان کیری‘ سی آئی اے کے سربراہ اور پینٹا گن کے ذمہ دار افسران کو ضرب عضب اور دہشت گردی کے خلاف فوجی کارروائی سے متعلق تفصیل کے ساتھ آگاہ کیا جس پر وہ مطمئن نظر آئے۔ نائب صدرجوبائیڈن سے بھی جنرل راحیل شریف کی ملاقات ہوئی جس میں ضرب عضب کے علاوہ پاک افغان تعلقات اور بھارت کے ساتھ تعلقات بھی زیر بحث آئے ۔ اس موقع پر جنرل راحیل شریف نے قومی مؤقف اختیار کیا اور کہا کہ کشمیر کا مسئلہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازع اور کشیدگی کی اصل وجہ ہے، جب تک یہ مسئلہ موجود ہے تعلقات میں بہتری کی امید کرنا عبث ہے۔ انہوںنے امریکی حکام پر زور دیا کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرانے میں دونوں ملکوں کی مدد کریں۔ افغانستان سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے جنرل راحیل شریف نے وہی باتیں کیں جو ایک ذمہ دار اور باشعور پاکستانی کی سوچ ہے، یعنی افغانستان کی حکومت خود نہیں چاہتی کہ طالبان کے ساتھ دوبارہ مذاکرات شروع کئے جائیں۔ افغانستان میں طالبان کی جانب سے ہونے والے حملوں میں افغان حکومت پاکستان کو ملوث کرکے مذاکرات کو سبوثاژ کررہی ہے۔ تین ماہ قبل شروع ہونے والے مری مذاکرات ملا عمر کی موت کی خبر عام ہونے پر تعطل کا شکار ہوگئے تھے۔ انہوں نے امریکی حکام کو بتایا کہ پاکستان پہلے بھی اور اب بھی ملتوی مذاکرات کو شروع کرانے کا خواہش مند ہے، لیکن بغیر پیشگی شرائط کے ۔ افغان حکومت حقانی نیٹ ورک کے خلاف بھی
کارروائی پر مصر ہے؛تاہم امریکہ اس حقیقت سے کلی طورپر واقف ہے کہ یہ سب کچھ افغان طالبان اپنے فلسفہ کے تحت کررہے ہیں۔ گزشتہ چودہ سال سے افغانستان میں خانہ جنگی کے پیچھے امریکہ کی عسکری طاقت کے علاوہ افغانستان کی سیاسی قیادت بھی ملوث رہی ہے، لیکن نہ تو جنگ ختم ہوئی اور نہ ہی طالبان نے افغان حکومت کے ساتھ شامل ہونے کا اشارہ دیا ہے۔ جنرل راحیل شریف نے امریکی حکام کو یہی نکتہ سمجھایا ہے، افغان آرمی کے ساتھ مل کر ایک بار پھر امریکی فوجی دستے طالبان کے خلاف لڑرہے ہیں، اور بقول ملا منصور ''یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک کہ افغانستان سے قابض فوج واپس نہیں چلی جاتی ‘‘ چنانچہ اس ضمن میں پاکستان کا کردار محدود ہے۔ بقول راحیل شریف فاٹا میں ہر قسم کے دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائی ہورہی ہے،ان میں حقانی نیٹ ورک بھی شامل ہے۔ جنرل راحیل شریف نے امریکی حکام کو یقین دلایاکہ فوج حقانی نیٹ ورک کو بڑی حد تک ناکارہ بنا چکی ، لیکن حقانی نیٹ ورک کی جڑیں خود افغانستان کے اندر موجود ہیں ‘ جن کی ذمہ داری افغان حکومت اور افغان آرمی پر عائد ہوتی ہے، نہ کہ پاکستان پر !
جنرل راحیل شریف نے امریکی حکام کو یہ بھی بتایا کہ بھارت ‘چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے پر عمل میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے، وہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ اس عظیم منصوبے کوناکام بنانا چاہتا ہے۔نتائج کے لحاظ سے جنرل راحیل شریف کا پانچ روزہ دورۂ امریکہ انتہائی کامیاب ثابت ہوا ہے۔ اس سے امریکہ کو آپریشن ضرب عضب کے بارے میں سمجھنے میں بڑی مدد ملی ہے، بلکہ امریکہ نے اس ضمن میں پاکستان کو اپنی مدد کا یقین بھی دلایا ہے، توقع ہے کہ جنرل صاحب کے اس دورے سے امریکہ اور پاکستان کے درمیان دفاعی شعبوں میں اضافہ ہو گا اور تیزی آئے گی۔ طویل عرصے سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان دفاعی شعبے میں گہرے تعلقات قائم ہیں۔ ایک امریکی تھنک ٹینک نے جنرل راحیل شریف کے دورے کو سراہتے ہوئے لکھا ہے کہ ''جنرل راحیل شریف نے حقیقی معنوں میں دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے، جو اپنی جگہ بڑا کارنامہ ہے‘‘، جنرل راحیل شریف نے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں سے متعلق بات چیت میں امریکی حکام کوبتایا کہ جوہری ہتھیار محفوظ ہیں۔ دس ہزار سے زائد فوجی ان ہتھیاروں کی حفاظت پر مامور ہیں ۔ انہوں نے امریکی حکام کو بتایا کہ پاکستان کے خلاف کسی بھی جارحیت کو روکنے کے لیے جوہری ہتھیار ضروری ہیں۔دریں اثناء انٹرنیشنل اٹامک انرجی نے بھی کہا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار ہر طرح سے محفوط ہیں، ان سے متعلق کسی کو تشویش نہیں ہونی چاہئے۔