بنگلہ دیش انتہا پسندی کی راہ پر!

2009ء سے بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد اپنے مخالفین پر مختلف النوع قسم کے الزامات عائد کرکے انہیں تختہ دار پر لٹکارہی ہیں۔ پھانسی پانے والوں پر یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ انہوں نے 1971ء میں سابق مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کی جانب سے '' آزادی کی تحریک‘‘ کو روکنے کے لیے پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت بنگالیوں پر ظلم ڈھایا گیا تھا، اس لیے ان افراد کو پھانسی دی جارہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا بنگلہ دیش کی ''آزادی کی تحریک‘‘ سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ تختہ دار پر لٹکائے جانے والوں میں جماعت اسلامی کے رہنما علی حسن مجاہد (خالدہ ضیا کی حکومت میں وزیر رہے) اور پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکر جناب فضل القادرچودھری کے فرزند، صلاح الدین قادر شامل ہیں۔ وہ بھی بنگلہ دیش کی قومی اسمبلی کے رکن رہے اور کسی حد تک قانون سازی میں حسینہ واجد کی حمایت کی تھی۔
بنگلہ دیش کے عوام میں ان پھانسیوں پر سخت تشویش کے ساتھ غم و غصہ بھی پایا جاتا ہے کیونکہ 1974ء میں بنگلہ دیش ، پاکستان اور بھارت نے دہلی میں ایک معاہدے پر دستخط کئے تھے اور عہد کیا تھا کہ 1971ء کے افسوسناک واقعات کو بھلا کر آگے کی طرف قدم بڑھانا چاہیے تاکہ تینوں ممالک کے درمیان امن وآتشی کی فضا قائم ہوسکے اور ترقی کی راہیں کھل سکیں۔ غالباً اسی قسم کی سوچ کا اظہار مسز اندرا گاندھی اور زیڈ اے بھٹو نے بھی شملہ معاہدے کے موقعے پر کیا تھا۔ لیکن حسینہ واجد ان تمام بین الاقوامی معاہدوں کے خلاف ورزی کرتے ہوئے پرانے زخموں کو تازہ کر تے ہوئے بے گناہ افراد کو بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے پھانسی پر لٹکارہی ہیں۔ کچھ بنگلہ دیشی صحافیوں نے فون پر مجھے بتایا کہ یہ سب کچھ بھارت کے ایما پر کیا جارہا ہے کیونکہ بھارت بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان اچھے تعلقات کے حق میں نہیں ہے۔ وہ حسینہ واجد کے ذریعے ان بے گناہ لوگوں کو 1971ء کے خونی واقعات میں ملوث ہونے کا جھوٹا، بے بنیاد اور لغو الزام لگا کر تختہ دار پر لٹکایا جارہا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت انتہائی ضروری ہے کہ حسینہ واجد کی پارٹی عوامی لیگ عوام میںاپنا اثرو رسوخ کھوتی جارہی ہے جبکہ خالدہ ضیا کی بی این پی آہستہ آہستہ عوام میں مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ یہ صورت حال حسینہ واجد سے زیادہ بھارت کے لیے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے کیونکہ اگر آئندہ عام انتخابات میں خالدہ ضیا کی پارٹی کامیاب ہو جاتی ہے تو بنگلہ دیش پر بھارت کا اثر و رسوخ کم ہوجائے گا اور وہ اپنی آزاد و خودمختار خارجہ پالیسی کے ذریعے اپنے معاملات خود سنبھالے گا۔
حسینہ واجد بنگلہ دیش کے غریب عوام کو، 1971ء کے خونی واقعات کا تذکرہ کرکے جذباتی طور پر بلیک میل کررہی ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ بنگلہ دیش کے عوام کی اکثریت کو 1971ء کے واقعات کا کوئی علم یا ادراک نہیں ہے اور نہ ہی وہ تاریخ کے دھندلکوں میں کھوج لگا کر مشرقی پاکستان سے متعلق واقعات کو جاننا چاہتے ہیں، لیکن حسینہ واجد تمام بین الاقوامی اصولوں کو روندتے ہوئے ان افراد کو پھانسی دے رہی ہیں جن سے متعلق نہ تو کوئی ٹھوس ثبوت موجود ہیں اور نہ ہی انہوں نے بنگالیوں پر تشدد کیا تھا۔ بنگلہ دیش کی اعلیٰ عدالت کو حکومتی طاقت کے ذریعے مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ حکومت کی خواہش کے مطابق انہیں پھانسی کی سزا دے۔ ان بے گناہ افراد کو دی جانے والی پھانسی کا پاکستان میں گہرا رد عمل ہوا ہے۔ پاکستان کی حکومت اور عوام نے ان پھانسیوں کو انصاف کا قتل قرار دیتے ہوئے عالمی کمیونٹی سے استدعا کی ہے کہ وہ بنگلہ دیش اور بھارت پر دبائو ڈال کر پھانسیوں کا سلسلہ روکنے کی کوشش کریں۔ اس کے علاوہ پاکستان اقوام متحدہ اور ہر عالمی فورم پر ان بے گناہ افراد کی پھانسیوں پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائے گا۔ پاکستان کے بعض سرکردہ افراد نے یہ پھانسیاں رکوانے کے لیے خاصی بھاگ دوڑ بھی کی تھی۔ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ سے بھی پھانسیاں رکوانے کی اپیل کی گئی تھی۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کیا ہے، لیکن حسینہ واجد کی حکومت نے ان اپیلوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھا اور ان افراد کو پھانسی دے دی گئی۔
بنگلہ دیشی حکومت کے اس سفاک اور بے رحمانہ طرز عمل کی وجہ سے پاکستان کے اس کے تعلقات ایک بارپھر خراب ہو رہے ہیں، حلانکہ پاکستان نے اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود حسینہ واجد حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات کے قیام کا عزم کر رکھا تھا اور بات چیت بھی چل رہی تھی، لیکن اب شاید ایک طویل عرصہ تک ایسا ممکن نہیں ہوسکے گا۔ بے گناہ افراد کی پھانسیوں کے سلسلے میں پاکستان کے احتجاج پر بنگلہ دیشی حکومت کے ترجمان نے کہا کہ یہ ''بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے‘‘ جس کی پابندی کرنا بنگلہ دیش پر لازم ہے؛ حالانکہ 1974ء کے معاہدے کے تحت یہ ایک علاقائی اور عالمی معاملہ ہے اور حسینہ واجد کی حکومت اس کی پابندی نہیں کر رہی ہیں، وہ اس معاہدے کو پیروں تلے روند کر خطے میں بھارت کی روش پر چلتے ہوئے پاکستان کے ساتھ باہمی تعلقات میں دراڑیں ڈال رہی ہے۔ ان اقدامات کی وجہ سے بنگلہ دیش میں انتہا پسندی پھیل رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں حزب اختلاف کے ان بے گناہ رہنمائوں کو پھانسی دینے کے سلسلے میں بعض بنگلہ دیشی اخبارات نے لکھا ہے کہ حسینہ واجد کی حکومت عوام کے معاشی مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور غربت جیسے سنگین مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے اس نے پھانسیوں کا ڈھونگ رچایا ہے، لیکن وہ اپنے ان مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ بنگلہ دیش میں حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے متحد ہوکر آئندہ کے لیے ایک لائحہ عمل تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے جس کے مطابق حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف منظم تحریک شروع کی جائے گی۔ حیرت ہے کہ یورپ اور امریکہ کی حکومتوں نے بنگلہ دیش میں حزب اختلاف کے ان بے گناہ افراد کو پھانسیوں پر اپنے ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ غالباً اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ حسینہ واجد کی حکومت کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ یہ ممالک بھارت کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے جس کے بنگلہ دیش پر سیاسی اورمعاشی اثرات بہت نمایاں ہیں۔ لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ حسینہ واجد اپنے مخالفین کو قید کرکے اور بعض افراد کو پھانسی دے کر اپنے اقتدار کو بچا نہیں سکیں گی، جلد ہی اس کا نتیجہ سامنے آجائے گا۔ انسانی حقوق کے کئی گروپوں نے بنگلہ دیشی عدالتوں کے ان فیصلوں کے بارے میں کہا ہے کہ یہ اعلیٰ قانون کے معیار کے مطابق نہیں تھے، فیصلے سیاسی نوعیت کے تھے۔ ایک امریکی قانون دان نے بڑی وضاحت سے بنگلہ دیشی عدالت کے فیصلے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جس وکیل نے علی حسن مجاہد اور صلاح الدین قادر کی پیروی کی تھی، انہیں مسلسل ڈرایا دھمکایا جارہا تھا اور انہیں مجبور کیا جارہا تھا کہ وہ ان کی پیروی ملتوی چھوڑدیں۔ پھانسیوں کی وجہ سے بنگلہ دیش ایک بار پھر عدم استحکام کا شکار ہوگیا ہے اور عوام میں بے چینی کے ساتھ ساتھ خوف وہراس بڑھ گیا ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں