خارجہ پالیسی کی سطح پر دو اہم پیش رفت ہوئی ہیں، پہلی پیش رفت بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کے درمیان پیرس میں ماحولیاتی کانفرنس کی سائیڈ لائن پر ملاقات ہے جس سے ان دونوں ممالک کے مابین موجود کشیدگی کو کم کرنے میں بڑی مدد ملے گی، مختصر سہی یہ ایک ملاقات تھی جس کی تفصیل معلوم نہیں ہوسکی ۔وزیراعظم میاں نواز شریف نے صرف اتنا کہا ہے کہ یہ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی ہے،جس کے مثبت اثرات دونوں ملکوں پر پڑیں گے۔ دوسری پیش رفت افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ وزیراعظم پاکستان کی پیرس میں ملاقات ہے، جو پاک افغان تعلقات میں موجود سرد مہری کو دور کرنے میں معاون ومدد گار ثابت ہوگی۔ اشرف غنی آٹھ دسمبر کو پاکستان میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کرنے کے لئے آئیں گے۔ اس کانفرنس میں افغانستان میں استحکام سمیت اس خطے کے دیگر ممالک کی معاشی وسماجی صورتحال پر تفصیل سے بحث کی جائے گی،خصوصیت کے ساتھ دہشت گردی جس نے اس خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، جس کے منفی اثرات براہ راست پاکستان اور افغانستان پر عرصہ دراز سے مرتب ہورہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجودہ کشیدگی بھی دہشت گردی کی وجہ سے پیدا ہورہی ہے، اس صورتحال پر بھی اس کانفرنس میں بڑی تفصیل سے بات چیت کی جائے گی۔
ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 14ممالک شرکت کررہے ہیں ،ان ممالک میں ترکی ، چین، امریکہ، افغانستان،کرغیزستان، سعودی عرب، روس،قازقستان، بھارت ایران اور متحدہ عرب امارات وغیرہ شامل ہیں، اس نوعیت کی پہلی کانفرنس استنبول میں نومبر 2011ء میں منعقد ہوئی تھی، جس میں افغانستان کی صورتحال اور افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے سے متعلق تمام سیاق و سباق کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا تھااور ان طریقوں پر بھی غور وخوض کیا گیا تھا، کہ کس طرح افغانستان کو سیاسی ومعاشی طور پر مستحکم بنایا جاسکتا ہے، اور اس میں علاقائی ممالک کا کیا کردار ہوسکتا ہے، اس کانفرنس کو Heart of Asiaکا نام دیا گیا ہے، اب یہ کانفرنس آٹھ دسمبر کو اسلام آباد میں منعقد ہورہی ہے۔اس کانفرنس کے اہم موضوع یعنی افغانستان میں سیاسی استحکام کے قیام سے متعلق یہ بھی غور کیا جائے گا کہ افغانستان اور طالبان کے درمیان مذاکرات کو دوبارہ کیسے شروع کیا جا سکتا ہے،نیز اشرف غنی نے پیرس میں میاں نواز شریف سے اپنی ملاقات میں اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ وہ افغان طالبان کے ساتھ دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کے لئے تیار ہیں۔ واضح رہے کہ افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان کچھ ماہ قبل مری میں افغانستان میں امن کے قیام سے متعلق خوشگوار ماحول میں بات چیت کا آغاز ہوا تھا، جس کو امریکہ سمیت ساری دنیا نے سراہا تھا، لیکن ملا عمر سے متعلق انتقال کی خبر نے ان مذاکرات میں تعطل پیدا کردیا تھا، لیکن اس کے باوجود پاکستان خلوص دل سے مری مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنا چاہتا تھا، چنانچہ اسلام آباد میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں پاکستان اور افغانستان سے متعلق تفصیلی بات چیت کی جائے گی، جبکہ ان تمام شریک ممالک کی کوشش ہوگی کہ افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان دوبارہ مذاکرات شروع کئے جائیں، مری مذاکرات میں پاکستان کا ایک اہم رول تھا، اس رول کو دنیا بھر نے تسلیم کیا تھا اور محسوس کرتی ہے کہ پاکستان ہی طالبان کو مذاکرات کی میز پر لاسکتا ہے، جیسا کہ اس نے ماضی میں دوحہ میں کیا تھا، اور بعد میں مری میں۔ نیز علاقائی ممالک کا یہ خیال درست ہے کہ جب تک علاقائی ممالک دہشت گردی کے خلاف متحد نہیں ہوں گے اور اس کے ساتھ ہی پاک افغان مذاکرات کو شروع کرانے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے تو افغانستان میں حالات بہتر نہیں ہوسکتے۔ طالبان افغان حکومت سے کچھ مطالبات منوانا چاہتے ہیںجس پر ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کو غور کرنا چاہئے تاکہ دونوں فریقوں کو مطمئن کیا جاسکے اور مذاکرات کی صورت میں افغانستان میں معاشی و سیاسی استحکام پیدا ہوسکے، تاہم اگر اشرف غنی طالبان کے ساتھ مذاکرات میں کامیابی چاہتے ہیں جیسا کہ محسوس کیا جارہا ہے، تو پھرانہیں حامد کرزئی والی سوچ سے باہر آنا ہوگا۔ حامد کرزئی بھارت کی ایما پر افغانستان میں امن کے خواہاں نہیں تھے۔ وہ پاکستان سے متعلق دشمنی میں بھارت سے کم نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے دور میں دوحہ کانفرنس کامیاب نہیں ہوسکی تھی، لیکن اب کیونکہ پوری دنیا دہشت گردی کی لپیٹ
میں آچکی ہے، اس لئے اب تمام ملکوں کو مل کر دہشت گردی کے خلاف کام کرنا ہوگا۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس یقینا ایسے نتائج پر پہنچے گی جس کی روشنی میں مری مذاکرات دوبارہ شروع ہوسکیںگے، نیز افغانستان اور پاکستان کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیاں بھی کسی حد تک دور ہوسکیںگی۔ یہ غلط فہمیاں دور ہونی اس لئے بھی ضروری ہیں کہ آئے روز دونوں ممالک کے درمیان جو تنائو کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے اس سے بچا جا سکے۔ یہ کشیدگی کسی روز خوفناک صورتحال میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے کیونکہ دونوں ممالک برسوں سے جنگی ماحول میں مبتلا ہیں اور کسی تیسرے دشمن کی سلگائی ہوئی آگ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے مقابل لا کھڑا کر سکتی ہے۔
پاکستان اور افغانستان جنوبی ایشیاء کے دو اہم پڑوسی ممالک ہیں۔دونوں ممالک تاریخی،جغرافی،لسانی،نسلی اور مذہبی وابستگی رکھتے ہیں۔دونوں ممالک کے تعلقات 1947 ء سے شروع ہوئے جب پاکستان ایک آزاد ملک بنا۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی نے کہا تھا کہ افغانستان اور پاکستان دو ایسے بھائی ہیں کہ جن کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔یہ اس لئے کہا تھا کیونکہ دونوں ممالک کا ایک تاریخی،جغرافی اور مذہبی تعلق ہے خاص کر سرحد کے دونوں جانب پشتون آباد ہیں جن میں رشتہ داریاں اور مل ملاپ ہوتا ہے۔ اس وقت خطے کے حالات بہت تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ طالبان کی جگہ اب داعش نے لے لی ہے۔ گزشتہ دنوں پیرس میں جو دہشت گردی ہوئی‘ اس کے شاخسانے داعش سے ملائے گئے ۔ داعش اس وقت یورپ میں اور مڈل ایسٹ میں بھی سرایت کر چکی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کا پیچھا کرنے کے لئے بہانے تلاش کئے جارہے ہیں۔ خود امریکہ نے اسے تخلیق کیا ہے اور خود ہی اسے مارنے کے درپے ہے تاکہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کئے جا سکیں جن میں سرفہرست دنیا پر حکمرانی کا خواب ہے۔ کیلی فورنیا میں ہونے والا واقعہ چاہے کسی مسلمان نے ہی کیوں نہ کیا ہو‘ اصل بات یہ ہے کہ یہ مسلم دنیا کی ترجمانی ہو ہی نہیں سکتی۔ اسلام ایک پُرامن دین ہے اور دہشت گردی کی اس میں کوئی گنجائش موجود نہیں۔ کسی ایک فرد کی انفرادی حرکت کو کسی مذہب سے جوڑنا درست نہیں۔ امریکہ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت اصل حکمرانی اس کی ہے جو معاشی طور پر مستحکم ہے۔ اس لحاظ سے تو چین پہلے نمبر پر ہے۔ تاہم امریکہ میں موجود ایک خاص یہودی لابی ملک کی خارجہ پالیسی کو کنٹرول کر رہی ہے۔ پہلے اس نے عراق پر چڑھائی کروائی۔ اسے ملیا میٹ کرنے کے بعد اب یہ دنیا کے دیگر ملکوں کے درپے ہے۔ افغانستان کے حالات تباہ کرنے میں امریکہ کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس وقت جو ملک اس کانفرنس میں شریک ہو رہے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ خطے کے بدلتے ہوئے حالات پر گہری نگاہ رکھیں۔ اس کے لئے پاکستان کے ساتھ دنیا کو تعاون کرنا ہو گا۔ پاکستان کا خطے میں کردار انتہائی اہم ہے اور افغانستان میں امن کا قیام پاکستان میں امن کے قیام سے مشروط ہے، چنانچہ دونوں ملکوں کے درمیان مستحکم سیاسی رشتوں کا ہونا ایک لازمی امر ہے،ورنہ تنہا یہ دونوںملک دہشت گردی کا مکمل خاتمہ نہیں کرسکیں گے، اور نہ ہی اس خطے میں قیام امن کا خواب پورا ہوسکتا ہے۔