یکم دسمبر سے پیرس میں ماحولیات سے متعلق عالمی کانفرنس جاری ہے، جس میں تقریباً 180ممالک شرکت کر رہے ہیں۔ اس کانفرنس کے آغاز سے قبل سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں امید ظاہر کی ہے کہ اس کانفرنس کے شرکا کلائمیٹ چینج کے ہر پہلو پر سنجیدگی سے غور کریں گے، تاکہ ایک ایسا متفقہ لائحہ عمل تشکیل دیاجاسکے جس کی مدد سے اس خوبصورت کرئہ ارض کو تیزی سے پھیلتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی سے بچایا جا سکے اور موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے دنیا کو محفوظ ومامون بنایا جاسکے۔ماحولیات سے متعلق بان کی مون کا تحریر کردہ پرمغز مدلل مضمون کا پیرس کانفرنس کے شرکا پر یقینا مثبت اثر پڑے گا اور یہ تمام چھوٹے بڑے امیر و غریب ممالک اس کانفرنس کے اختتام پر ایک ایسی قابل عمل حکمت عملی وضع کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے، جس پر سنجیدگی اور خلوص دل اور مستقل مزاجی سے عمل پیرا ہوکر دھرتی کو آئندہ قدرتی آفات سے ممکن حد تک بچایا جاسکے گا۔اس وقت دنیا کے تمام ممالک ماحولیاتی تبدیلیوںسے پیدا ہونے والے اثرات سے متعلق خاصی تشویش میں مبتلا ہیں اور اس حقیقت کو محسوس کررہے ہیں کہ اگر کرئہ ارض کے بڑھتے ہو ئے درجہ حرارت (گلوبل وارمنگ) کو کنٹرول کرنے کی اجتماعی کوشش نہ کی گئی تو سیلابوں ، خشک سالی، طوفانوں اور گلیشئرز کے پگھلنے کے سلسلے کو نہیں روکا جاسکے گا اور ایسے ممالک جو جزیروں کی صورت میں آباد ہیں‘ صفحہ ہستی سے معدوم بھی ہوسکتے ہیں۔ بقول سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ ،''ماحولیات کی آلودگی کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جو ہر ملک کو متاثر کررہا ہے‘‘۔
تاہم کلائمیٹ چینج سے متعلق پیرس میں ہونے والی یہ عالمی کانفرنس ایک ایسے ماحول اور حالات کے پس منظر میں منعقد ہورہی ہے جب کچھ دن قبل اس خوبصورت شہر کو دہشت گردوں نے خوف میں نہلا دیا تھا۔ اس حملے میں تقریباً 130خواتین و مرد جاں بحق ہو گئے تھے۔ اس واقعہ نے پیرس سمیت پورے یورپ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس وقت بھی پیرس سمیت پورے یورپ میں خوف اور اضطراب کا ماحول طاری ہے۔ اس منظم دہشت گردی کا ایک مجرم ابھی روپوش ہے، جس کے متعلق خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ کسی بھی وقت کسی بھی جگہ دہشت گردی کا ارتکاب کرکے معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیل سکتا ہے۔ چنانچہ ماحولیات سے متعلق اس عالمی کانفرنس میں خوف کی فضا بدستور قائم ہے ، حالانکہ فرانسیسی صدر نے اس اہم عالمی کانفرنس کے شرکا کی حفاظت کے لئے غیر معمولی انتظامات کئے ہیں، تاکہ کوئی نا خوشگوار واقعہ رونما نہ ہو سکے۔ اس کانفرنس میں شریک ہونے والے ممالک اس بات پر غور وخوض کررہے ہیں کہ کرئہ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ ٔحرارت کو کس طرح کنٹرول کرتے ہوئے 2 ڈگری سنٹی گریڈ تک محدود کیا جاسکتا ہے، نیز وہ ممالک جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے ذمہ دار ہیں ،مثلاً ، امریکہ ، چین، بھارت، یورپ، اور ایشیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک‘ انہیں چاہئے کہ وہ اپنے کارخانوں اور بجلی پیدا کرنے والے ذرائع کو ایسی ٹیکنالوجی اپنانے پر زور دیں، تاکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کم سے کم ہو سکے، جو گلوبل وارمنگ کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس کے علاوہ غریب ممالک جو ابھی تک معاشی طورپر اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوسکے اور جو اپنی ترقی کے لئے انہی راہوں پر گامزن ہیں جس پر چل کر امیر ممالک نے اپنی اقتصادی ترقی کا خواب پورا کیا تھا۔پسماندہ ممالک کی رہنمائی ابھی سے ہونی چاہیے تاکہ ماحولیاتی آلودگی کو روکتے ہوئے معاشی ترقی کے اہداف کو حاصل کیا جا سکے۔ اگر ماحولیات کی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے سلسلے میں جدید ٹیکنالوجی کا سہارا نہیں لیا گیا یا پھر نئے راستے تلاش نہیں کئے گئے تو پھر اس کرئہ ارض کا مستقبل سوالیہ نشان بن جائے گا۔ یہ سب کچھ حاصل کرنے کے لئے کثیر سرمائے کی ضرورت ہے، (کم از کم 100بلین ڈالر 2020ء تک کے لئے)۔ اگر پیرس کانفرنس کے تمام شرکا اس فنڈ کو قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ہم سب مل کر اس حسین دھرتی کو موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے بچانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ دراصل اس کرئہ ارض کا مستقبل پیرس کانفرنس میں ہونے والے فیصلوں سے وابستہ ہوچکا ہے ۔ اگر اس عالمی کانفرنس کے شرکا نے بلا امتیاز گلوبل وارمنگ کے معاملے پر غور کرتے ہوئے کوئی قابل عمل دستاویز ات تیار نہ کیں تو پھر یہ دنیا بے شمار مسائل کا شکار ہوسکتی ہے، جس میں آئے دن سیلابوں کا آنا، مختلف جگہوں پر خشک سالی ، پینے کے پانی کی شدید قلت، وقت پر فصلوں کا تیار نہ ہونا اور گرمی وسردی کے موسموں کے دوران درجۂ حرارت کا نمایاں فرق شامل ہیں۔یہ تمام عوامل آہستہ آہستہ انسانی زندگی پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ ظاہر ہے جب طویل عرصہ بارش نہیں ہو گی تو کسان کیا کرے گا۔ وہ کہاں سے پانی کی ضروریات کو پورا کرے گا۔ یہ تمام عوامل اس کی معاشی زندگی کے ساتھ ساتھ اس کی ذہنی اور جسمانی ساخت پر بھی اثر انداز ہوں گے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ غربت میں اضافے کے ساتھ ساتھ بعض ممالک میں Food Insecurityکے خدشات بھی بڑھتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے معاشرتی وتہذبی اقدار شدید متاثر ہوسکتی ہیں۔ معاشی عدم تحفظ کی وجہ سے کئی معاشروں میں انتشار بڑھ جانے کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں اور مجموعی ترقی بھی متاثر ہورہی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی سے آگاہی کا فقدان بھی اس مسئلے کی بڑی وجہ ہے۔ بہت سے ممالک میں ماحولیاتی تبدیلیوں کا ادراک ہی نہیں کیا جا سکا۔ انہیں علم ہی نہیں کہ یہ کتنا بڑا مسئلہ ہے اور آگے چل کر کتنی خطرناک صورت حال اختیار کرسکتا ہے۔ اس کے لئے تمام ممالک کو مل کر ایک حکمت عملی وضع کرنا ہو گی اور اس پر عمل بھی کرنا ہو گا۔پیرس کانفرنس کو ضرور کامیاب ہونا چاہئے اور اس کے لئے سب کو دعا کے ساتھ کوشش بھی کرنی چاہئے کہ اسی میں اربوں انسانوں کی عافیت اور عالمی تہذیب کی بقا ہے۔