ہارٹ آف ایشیاکانفرنس کے دوران بھارتی وزیرخارجہ کی سرتاج عزیز کے ساتھ بات چیت کے مثبت نتائج نکلے ہیں۔ خوشگوار اور قابل اطمینان بات یہ ہے کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ دو سال سے رکے ہوئے جامع مذاکرات کا سلسلہ جلد شروع ہوجائے گا، جس میں کشمیر سمیت وہ تمام معاملات زیربحث آئیں گے جن پر اگر کھلے دل اور نیک نیتی سے عمل کیا گیا تو کوئی وجہ نہیں کہ اس بات چیت کے مثبت نتائج برآمد نہ ہو سکیں۔ پاکستان روزِ اول سے‘جب سے نریندرمودی سرکار انتخابات جیت کر مسند ِاقتدار پر براجمان ہوئی ہے، مذاکرات پر زور دے رہا ہے ، لیکن بھارت کی جانب سے اس ضمن میں کوئی حوصلہ افزاجواب نہیں ملا تھا ؛ تاہم جب پیرس میں ماحولیاتی کانفرنس کی سائیڈ لائن پر مودی اور وزیراعظم نواز شریف کی ''اچانک ‘‘اور غیر متوقع ملاقات ہوئی تو اس دوران بہت کچھ طے پا چکا تھا۔ نیز اس ماحولیاتی کانفرنس میں امریکن ڈپلومیٹ بھی بہت زیادہ متحرک اور فعال تھے، جو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کے مابین ملاقات کو یقینی بنانا چاہتے تھے۔ اس بات چیت کے '' مندرجات‘‘ کو میڈیا سے دور رکھا گیا تھا ، کیونکہ عالمی سطح کے بعض مبصرین کا خیال ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جب بھی بات چیت شروع ہوتی ہے تو میڈیا اس کو ناکام بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ بھارتی میڈیا جس کی سوچ میں کوئی مثبت عنصر نہیں پایا جاتا لیکن شاید اب بھارت کی پاکستان سے متعلق سوچ میں تبدیلی رونما ہو رہی ہے، جس کا واضح اشارہ بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج کے اعلان سے ہوا ہے۔ یقینا پاکستان ان مذاکرات سے ضرور فائدہ اٹھائے گا، تاکہ بھارت اور پاکستان کے سیاسی اُفق پر کشیدگی کے علاوہ جو بدگمانیاں موجود ہیں‘ وہ بھی دور ہوسکیں اور دونوں ممالک ایک نئے عزم ،اورحوصلے کے ساتھ بات چیت کا آغاز کرسکیں۔
تاہم یہاں یہ بات بھی لکھنابہت ضروری ہے کہ ان جامع مذاکرات کے شروع ہونے کے بعد اگر کسی فوری نتیجہ کی توقع کی جارہی ہے تو یہ غیر منطقی سوچ ہوگی، کیونکہ ان دونوں ملکوں کے درمیان اب بھی تقریباً ہر سطح پر عدم اعتماد کی فضا موجود ہے،جوکہ کئی دہائیوں کی پیدا کردہ ہے اور اس فضا کوختم کرنے کے سلسلے میں سفارتی اور عوامی سطح پر کافی محنت اور سنجیدگی درکار ہوگی۔ مزید برآں اس صورتحال کو تبدیل کرنے میں سیاست دانوں کے علاوہ میڈیا کا ایک اہم کردار ہو گا۔ اگر دونوں طرف کے میڈیا کو پاکستان اور بھارت کے درمیان جامع مذاکرات کے سلسلے میں اعتماد میں لیا جاتا ہے تو اس کے خوشگوار نتائج نکل سکتے ہیں، ورنہ یہی میڈیا مذاکرات اور اعتماد سازی کی فضا کو تلپٹ کر سکتا ہے۔ جہاں تک پاکستانی میڈیا کا تعلق ہے تو اس میں بھارت کے ضمن میں غیر ضروری تلخی نہیں پائی جاتی بلکہ وہ خلوص دل اور خلوص نیت سے یہی چاہتا ہے کہ بھارت سمیت تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہوں تاکہ اس صورت میں تجارت کے فروغ کے ساتھ ثقافتی سطح پر بھی مثبت صورتحال پیدا ہوسکے۔
دونوں ممالک کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان کے مابین اب بھی گہرے شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں جن کو دور کرنا ضروری ہے۔ کشمیر کا مسئلہ بنیادی حیثیت کا حامل ہے، جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں اور کشمیری عوام کی مرضی سے حل ہونا چاہئے، لیکن اس مسئلہ کو تعطل میں رکھ کر اور اس پر سنجیدگی سے غور نہ کر کے بھارت نے حالات کو اس نہج پر پہنچادیا ہے کہ آئے دن لائن آف کنٹرول اورورکنگ بائونڈری پر بھارت کی جانب سے
فائرنگ کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہتا ہے، جس میں پاکستانی شہریوں اور ان کی املاک کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ جیسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے، چنانچہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بھارت لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا سلسلہ بند کرے تا کہ آئندہ جب جامع مذاکرات کا آغاز ہو سکے تو اس میں کسی قسم کی رکاوٹ پیش نہ آ سکے۔ دونوں ملکوں کو باہمی تعلقات کے فروغ کے لئے مثبت لب و لہجہ اپنانے کی ضرورت ہے، ورنہ دوسری صورت میں نہ تو ان دونوں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات پیدا ہوسکتے ہیں، اور نہ ہی کوئی دوررس پائیدار امن کا قیام عمل میں آسکتا ہے۔ اس لئے جامع مذاکرات کے آغاز سے قبل دونوں ملکوں کے سیاست دانوں کو اپنے بیانات میں احتیاط ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے، تاکہ جہاں ان مذاکرات کے ذریعے باہمی اعتماد سازی کو تقویت مل سکے‘ وہیں مذاکرات بغیر کسی رکاوٹ کے جاری وساری رہ سکیں۔ اس ضمن میں بھارتی سیاست دانوں کو اپنے بیانات پر خصوصی توجہ دینی چاہئے، کیونکہ بھارتی معاشرہ بہت زیادہ انتہا پسند واقع ہوا ہے، خصوصیت کے ساتھ
اقلیتوں کے حوالے سے!بہر حال پاکستان اور بھارت کے مابین جامع مذاکرات کا شروع ہونا ایک نیک شگون ہے جس کے ذریعہ امن کی فضا پیدا ہوسکے گی۔ پاکستان ، بھارت اور افغانستان کے لئے اس خطے میں امن انتہائی ضروری ہے کیونکہ امن کے بغیر معاشی ترقی کا خواب پورا نہیں ہوسکے گا اور نہ ہی غربت اور بیروزگاری میں کمی آسکتی ہے۔ دہشت گردی اس خطے کا ایک اہم مسئلہ ہے جسے اس خطے کے تمام ممالک باہم مل کر ختم کر سکتے ہیں، ورنہ کسی ایک ملک کو اس کا موردِ الزام ٹھہرا کر اس مسئلہ کو حل نہیں کیا جا سکتا ۔ دہشت گردی کے عفریت کو ختم کرنے کے لئے اس خطے کے تمام ممالک کی اجتماعی کوششیں درکار ہیں۔ ہارٹ آف ایشیا کا نفرنس میں بھی یہی طے پایا ہے کہ داعش اور القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ اور طالبان کو مذاکراتی عمل میں شامل کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ کانفرنس میں افغانستان سمیت خطے کو دہشت گردی سے لاحق خطرات کے خاتمے ، دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی اور ان کی مالی معاونت روکنے کے لیے اقدامات پر اتفاق کیا گیا۔ اگر یہ تمام ممالک تہیہ کر لیں کہ وہ دہشت گردی کی ہر صورت کو روکنے کی کوشش کریں گے اور کانفرنس میں طے پانے والے نکات پر عمل درآمد کریں گے تو خطے میں امن اور معاشی ترقی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔