آج سے چالیس سال قبل کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کراچی میں گردوں کی مختلف النوع بیمار یوں کے علاج اور ٹرانسپلانٹ کا ایشیا میں سب سے بڑاہسپتال معرض وجود میں آئے گا، لیکن ایسا ہوا ہے۔ آج کراچی سمیت پاکستان بھر سے لوگ گردوں کی بیماریوں کا علاج کرانے ایس آئی یو ٹی Sindh Institute of Urology آتے ہیں، جہاں مریضوں کی عزت نفس کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مفت علاج کیا جاتا ہے۔اس ادارے کو موجودہ شکل دینے میں ڈاکٹر ادیب رضوی کا کردارکلیدی ہے ۔ انہوںنے 1972ء میں کراچی سول ہسپتال میں آٹھ بستروں پر مشتمل یورولوجی کے شعبے میں گردوں کے علاج اور آپریشن کا آغاز کیا‘ ان کی اور ان کے ساتھ کا م کرنے والے ڈاکٹروں کی ٹیم نے دن رات محنت کرکے اس چھوٹی سے جگہ کو آہستہ آہستہ ایک بڑے ادارے میں تبدیل کردیا۔ ایس آئی یو ٹی کوگردوں کی بیماریوں کے علاج کا بڑا ادارہ بنانے میں ڈاکٹر ادیب رضوی کو اس ملک کے اہل ثروت کا تعاون حاصل رہا ۔ اور اب بھی ہے، کیونکہ اتنے بڑے ادارے کو بغیر مالی امداد کے نہ تو تعمیر کیا جاسکتا تھا اور نہ ہی چلایا جاسکتا ہے، لیکن مخیر حضرات کو ڈاکٹر ادیب رضوی کی دیانت اور امانت پر یقین کامل تھا‘ اس لئے انہوںنے دل کھول کر اس کی تعمیر کے لئے مالی تعاون کیا۔ آج یہ ادارہ گردوں کی مختلف بیماریوں کے مفت علاج کا پاکستان میں سب سے بڑا مرکز بن چکا ہے۔ جہاں امیر غریب کا بلاامتیاز ان کی عزت نفس کو ملحوظ رکھتے ہوئے علاج کیا جاتا ہے۔اب یہاں جگر کی بیماریوں کے ساتھ ساتھ جگر کا ٹرانسپلانٹ بھی کیا جارہا ہے۔ ہر سال گردوں کے دس لاکھ مریض اس ہسپتال کی جدید سہولتوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ یہاں Dialysisکا بھی معقول انتظام ہے۔ ہر روز سینکڑوں مریض ڈائیلسزکرانے کے بعد معمول کے مطابق زندگی بسر کرنے لگتے ہیں۔ یہاں 1500بستروں پر مشتمل وارڈ میں ان مریضوں کو علاج کے لئے رکھا جاتا ہے، جو پاکستان کے دور دراز علاقوں سے آتے ہیں، انہیں یہاں علاج کے دوران مفت ادویات مہیا کرنے کے علاوہ کھانے پینے کی تمام سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر ادیب رضوی اور ان کے ساتھی ڈاکٹر سول ہسپتال میں گردوں کے مریضوں کے لئے او پی ڈی میں بھی بیٹھتے ہیں جہاں کراچی اور سندھ بھر سے آئے ہوئے مریضوں کا موقع پر ہی معائنہ کرکے انہیں دوائیں دے کر فارغ کردیا جاتا ہے، جن مریضوں کی حالت زیادہ خراب ہوتی ہے انہیں داخل کرلیا جاتا ہے۔
اس ادارے میں نرسنگ کا شعبہ بھی ہے‘ جہاں نرسوں کو جدید خطوط پر تعلیم دی جاتی ہے، بعد میں تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد یہ نرسیں اس ادارے کے علاوہ دیگر اداروں میں بہتر معاوضے کے عوض خدمات انجام دیتی ہیں۔ دراصل ایس آئی یو ٹی اب گردوں کی مختلف بیماریوں یا ٹرانسپلانٹ کے علاج کا ایک قابل اعتماد مرکز ہی نہیں رہا ہے بلکہ یہاں پر مختلف بیماریوں کے سلسلے میں تحقیق بھی کی جاتی ہے۔ اعلی تعلیم یافتہ سائنس داں اور ڈاکٹر ریسرچ کے ذریعہ جدید علاج کے لئے طور طریقے دریافت کررہے ہیں۔ یہ سب کچھ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے پر خلوص انداز میں قابل تقلید جذبے کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کی یہ سوچ قابل تحسین ہے کہ صحت کے شعبے کو فعال بنانے کے لئے حکومت کا کرداراہم ہونا چاہئے، کیونکہ نجی شعبے میں قائم کئے جانے والے ہسپتالوں میں مریضوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ نیز پاکستان کا ایک عام آدمی ان نجی ہسپتالوں میں علاج کرانے کا سوچ بھی نہیں سکتا ، اس لئے حکومت کی صحت اور تعلیم کے شعبے میں ترجیحات پر عمل پیرا ہونے سے ہی پاکستانی معاشرے کو ذہنی وجسمانی طورپر صحت مند سماج میں بدلا جاسکتا ہے، تاہم اس کے لئے لگن اور اخلاص کی ضرورت ہے‘ جس کا ثبوت ڈاکٹر ادیب رضوی اور ان کے ساتھی ڈاکٹروں نے بے لوث خدمت کرکے فراہم کردیا ہے،۔
ایس آئی یو ٹی کو قائم ہوئے اور انسانیت کی بلا امتیاز خدمت کرتے ہوئے چالیس سال ہوگئے ہیں ۔اس عرصے میں ڈاکٹر ادیب رضوی کو بسا اوقات اپنوں اور بیگانوں کی طرف سے حوصلہ شکن رویے اور برتائوں کا سامنابھی کرنا پڑا‘ جیسا کہ اکثر ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے، لیکن ڈاکٹر ادیب رضوی ان حالات سے نہ تو دل برداشتہ ہوئے اور نہ ہی ان کے جذبے اور حوصلے میںکسی قسم کی کمی آئی وہ اُسی جوش و جذبے کے ساتھ تندی باد مخالف کا مقابلہ کرتے ہوئے، مسلسل آگے بڑھتے رہے اور کارواں بنتا گیا۔ آج ایس آئی یو ٹی پاکستان کے اندر اور باہر گردوں کی بیماریوں کے علاج کا ایک ایسا مرکز بن گیا ہے جس کی مثال پاکستان میں کہیں اور نظر نہیں آتی۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کے اس کارنامے کا روشن پہلو یہ بھی ہے کہ انہوںنے مستقبل میں اس ادارے کو چلانے کے لئے ایک ایسی تربیت یافتہ ٹیم تشکیل دے دی ہے، جو ظاہر و باطن میں ممکنہ رکاوٹوں اور مزاحمتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ادارے کی کارکردگی میں کسی قسم کی کمی نہیں آنے دے گی ۔اور عوام کا بلا امتیاز علاج معالجے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ پاکستان میں دیگر بیماریوں کے علاوہ گردوں کی بیماریوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ؛اگرچہ غربت بھی اس بیماری کا باعث ہے لیکن پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی بھی اس کا سب سے بڑا سبب ہے۔ آبادی کے بڑھتے ہوئے دبائو اور حکومتوں کی صحت اور تعلیم کے شعبے میں غفلت اور ناقص کارکردگی کی وجہ سے وسائل سمٹ رہے ہیںاور مسائل بڑھ رہے ہیں۔ ترقی کی فتار ہر گزرتے دن کم ہوتی جارہی ہے۔ ان معروضی حالات میں ایس آئی یو ٹی کا وجود غریبوں، مفلسوں اور گردے کے مریضوں کا ایک ایسا سہارا بن چکا ہے جسے تاقیامت قائم رہنا چاہئے۔