ذاتی دوستی یا ملک کا مفاد؟

گزشتہ دنوں پیرس میں ماحولیاتی کانفرنس سے قبل بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے علاوہ آر ایس ایس اور شیوسینا پاکستان کے خلاف زہر اگل رہے تھے اور مسلسل پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز قرار دے رہے تھے؛ حالانکہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے اور آپریشن ضرب عضب کے ذریعے اس سے نبرد آزما بھی۔ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر بھارتی حکومت کے ایما پر پاکستانی علاقوں میں گولہ باری ہورہی تھی جس کے نتیجے میں کئی پاکستانی شہری شہید بھی ہوئے۔ خود بھارت کے اندر وزیر اعظم نریندرمودی اور ان کی پارٹی کی انتہا پسندی پر مبنی سوچ کی وجہ سے مسلمانوں اور چھوٹی ذات کے ہندوئوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا تھا۔ نئی دہلی کے قریب داوری کے رہائشی اخلاق احمد کو آر ایس ایس کے غنڈوں نے محض اس لیے تشدد کرکے قتل کردیا کہ اس نے گائے کا گوشت کھایا تھا۔ جب تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ سب جھوٹ تھا۔ اسی طرح ایک کمپیوٹر انجینئر کو گوا میں معمولی تکرار پر قتل کردیا گیا۔ چھوٹی ذات کے ہندوئوں کے ایک نوجوان کو برہنہ کرکے تشدد کرنے کے بعد مار دیا گیا۔ یہ سب نریندر مودی اور ان کی پارٹی کی سوچ کے مطابق ہوتا رہا، یہاںتک کہ اس انتہا پسندی کے خلاف ادیبوں، دانشوروں اور فلم اسٹارز نے اپنے اعزازات واپس کرنے شروع کردیے، لیکن مودی سرکار کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ بی جے پی کے انتہا پسند کارکنوں نے بابری مسجد 1992ء میں شہید کر دی تھی، اب وہاں رام مندر تعمیر کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں شدید بے چینی پائی جا رہی ہے۔ علاوہ ازیں کوئی مسلمان دہلی، ممبئی یا بھارت کے دوسرے بڑے شہروں میں نہ تو کرائے کا مکان حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی گھر تعمیر کرسکتا ہے۔ آج بھارت میں انتہا پسندوں کا راج ہے، جہاں اقلیتیں نہ صرف غیر محفوظ ہیں بلکہ مسلسل خوف اور تشویش میں زندگی بسر کر رہی ہیں۔ یہ سب کچھ نریندر مودی اور ان کی جماعت کے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہو رہا ہے۔ 2002ء میں گجرات میں نریندر مودی کے ایما پر ہی مسلمانوں کا قتل عام ہوا تھا۔ امریکہ نے اسے دہشت گردی قرار دیتے ہوئے مودی کی امریکہ میں آمد پر پابندی عائد کردی تھی۔
اب یہی شخص پاکستان کے ساتھ دوستی اور مفاہمت کا دم بھر رہا ہے۔۔۔۔آخر کیوں؟ یہ تبدیلی کیسے وجود میں آئی؟ کیا امریکہ کے ایما اور ہدایت پر؟ یا پھر بھارت کے اندر نریندر مودی کی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا جا رہا ہے؟ برسر اقتدار آنے کے بعد ڈیڑھ سال یہ شخص پاکستان کو بد نام کرنے اوراس پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کرتا رہا۔ باشعور پاکستانی نریندر مودی کے اس یوٹرن پر حیرت زدہ ہیں۔ کیا وزیر اعظم میاں نواز شریف کی سالگرہ اتنی اہمیت کی حامل تھی کہ وہ روس اور افغانستان کا دورہ کرنے کے بعد اپنے نئے دوست کو اس کی مبارکباد دینے کے لیے''اچانک‘‘ پاکستانی سر زمین پر نمودار ہوگئے؟ کیا ذاتی دوستی کی بنیاد پر کسی ملک کی خارجہ پالیسی تشکیل پاتی ہے؟ اور کیا ذاتی دوستی سے جنوبی ایشیا کے سلگتے ہوئے مسائل مثلًا کشمیر، سیاچن، سرکریک اور پانی کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے؟ 
یہ تسلیم کرنا ایک ناقابل یقین بات معلوم ہوتی ہے کہ نریندر مودی کی لاہور میں مختصر آمد خیر سگالی کے جذبات سے معمور تھی ۔ قرین قیاس یہ ہے کہ نریندر مودی نے یہ دورہ اچانک نہیں کیا بلکہ میاں نواز شریف نے اس کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی تھی۔ انہوںنے اپنے بھارت کے مشترکہ دوستوں کے ذریعے نریندر مودی کو افغانستان سے پاکستان آنے کے لیے راضی کیا اور تاثر یہ دیا گیا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سب کچھ ''ٹھیک‘‘ ہے۔ پریشانی کی کوئی بات نہیں، دونوں ملکوں کی جمہوری حکومتیں ایک دوسرے کے ساتھ مفاہمت اور دوستی کے ذریعے تمام مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
اگر یہ بات درست ہے تو پھر ڈیڑھ سال تک بھارت کی جمہوری حکومت پاکستان کے اندر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے عدم استحکام کیوں پیدا کرتی رہی اور کیوں بھارت کی حکومت بالخصوص اس کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پاکستان پر حملہ کرنے کی دھمکیاں دی جاتی رہیں؟ دوسری جانب حکومت کی جانب سے ان گیدڑ بھبکیوں پر مسلسل خاموشی کیوں اختیار کی جاتی رہی؟ اس ضمن میں ایک اور سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ نریندر مودی اور میاں نواز شریف کی دوستی اچانک اتنی گہری کیسے ہوگئی؟ کیا ان کی دوستی اس وقت ہوئی جب میاں صاحب نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شریک ہونے کے لیے دہلی گئے تھے اور وہاں انہوںنے سرکاری مصروفیات سے فارغ ہوکر اپنے بیٹے کو بھارتی صنعتکاروں سے متعارف کرایا تھا تاکہ خاندانی تجارت مزید بڑھے اور فروغ پائے؟ ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا میاں نواز شریف نے نریندر مودی کے اس اچانک دورے کے بارے میں قومی اسمبلی بالخصوص قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کو اعتماد میں لیا تھا؟ غالباً نہیںکیونکہ علامہ اقبال ایئر پورٹ پر نریندر مودی کا استقبال کرنے والے زیادہ تر ان کے خاندان کے افراد ہی تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے قومی مفاد پر ذاتی مفادات کو ترجیح دی جا رہی ہے اور ایک ایسے شخص کو پاکستان میں خوش آمد ید کہا جا رہا ہے جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور جس کی پارٹی ابھی تک اکھنڈ بھارت کے فلسفے سے دستبردار نہیں ہوئی۔
افغانستان میں پاکستان مخالف لابی کو بھارتی خفیہ ایجنسی 'را‘ کے ذریعے مزید مستحکم کیا جا رہا ہے تاکہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات بہتر نہ ہونے پائیں۔ میاں نواز شریف ایک تاجر ہیں، مدبر نہیں، اس لیے وہ آسانی سے لالے کی چکنی چپڑی باتوں پر اعتماد کر رہے ہیں۔انہیں چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں اور بتائیںکہ نریندر مودی کا ''خیر سگالی‘‘ دورہ اچانک تھا یا اس کے پیچھے کوئی اور مقاصد کار فرما تھے؟ مودی کے اچانک دورہ ٔلاہور سے یہ تاثر بھی مل رہا ہے کہ بھارت اس خطے کا بلاشرکت غیر ''بادشاہ‘‘ بن رہا ہے اور پاکستان کی کمزور سیاسی قیادت اس تاثر کو مزید مستحکم کر رہی ہے۔ ایک ایسے ملک کے سربراہ کے ساتھ ذاتی تعلقات کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے جس کی حکومت ، فوج اور انتہا پسند جماعتیں پاکستان کو تباہ کرنے کے منصوبے بناتی رہتی ہیں۔ ادھر ہم ہیں کہ جی حضوری کرکے ذاتی مفادات کو ملک کے مفاد پر ترجیح دے رہے ہیں، کیا یہ سفارت کاری ہے؟ ذراسوچیے!

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں