سال گزشتہ کی روداد

2015ء کا سال پاکستان کے حوالے سے کچھ اچھی اور کچھ بری خبروں کے ساتھ گزر گیا۔ پوری قوم سال گزشتہ کے بارے میں سوچ رہی ہے کہ ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ یہ سوچ پاکستان کے معروضی حالات کے ساتھ ابھرتی اور اس بات کا تعین کرتی ہے کہ گزشتہ سال کے سفر میں قوم نے کتنی معاشی ترقی کی اور عوام میں کس حد تک سماجی تحفظ کا احساس پیدا ہوا‘ نیز غربت میں اضافہ ہوا یا کمی واقع ہوئی۔ 2015ء میں اقتصادی ترقی کی شرح نمو میں معمولی اضافہ ہوا تھا، یعنی چار عشاریہ ایک فیصد۔ اگر صنعتی اور تجارتی پالیسی سوچ سمجھ کر تشکیل دی جاتی تو شرح نمو میں مزید اضافہ ہو سکتا، لیکن ابھی تک ان پالیسوں کا اعلان نہیںکیا گیا، خصوصیت کے ساتھ تجارتی پالیسی ہنوز تیاری کے مراحلے سے گزر رہی ہے۔ گزشتہ سال حکومت برآمدات بڑھانے میں ناکام رہی۔ ہماری برآمدات مسلسل گر رہی ہیں، جس کے فی الحال بڑھنے کے امکانات نظر نہیں آتے۔ نجی شعبہ بعض وجوہ کی بنا پر برآمدات بڑھانے کے لئے محنت نہیں کر رہا‘ نہ ہی اپنی مصنوعات کے لئے نئی مارکیٹ تلاش کر رہا ہے، جبکہ ہمارے پڑوسی ممالک کے تاجر اور صنعت کار مسلسل نئی مارکیٹ کی تلاش میں بیرونی ممالک کا سفر کرتے رہتے ہیں‘ جس کے باعث ان کی برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے، نیز پاکستان کے سفارت خانوں میں تعینات بعض کمرشل قونصلر اپنی ذمہ داریاں ٹھیک طور پر ادا نہیں کر رہے۔ ان کی اس غفلت اور ناقص کارکردگی کی وجہ سے بھی برآمدات زوال پذیر ہیں۔ سیاسی بنیادوں پر مقرر کئے گئے کمرشل قونصلرز سے یہی امید کی جا سکتی ہے۔
امن و امان کے حوالے سے 2015ء ایک اچھا سال تھا۔ ضرب عضب کے ساتھ کراچی میں شروع ہونے والے ٹارگٹڈ آپریشن کی وجہ سے اسلامی دنیا کے اس سب سے بڑے شہر میں صورتحال بہتر ہوئی۔ عوام کے ساتھ تاجروں اور صنعت کاروں نے اس صورتحال پر اپنے گہرے اطمینان کا اظہار کیا ہے، اور تہہ دل سے رینجرز اور کراچی پولیس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ کراچی آپریشن جاری رہے گا، کیونکہ کراچی میں مکمل طور پر امن بحال کرنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اور ہنوز کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں میں سٹریٹ کرائمز کا خاتمہ نہیں ہوا۔ چور، اُچکے اور ڈاکو ابھی تک اپنی مذموم کارروائیوں میں مصروف ہیں‘ جن کے قلع قمع کے لئے رینجرز اور کراچی پولیس شب و روز محنت کر رہی ہیں؛ تاہم سندھ حکومت کی مبہم اور ناقص پالیسوں کے علاوہ ایک خاص منصوبے کے ساتھ ان کی راہوں میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ عوام سندھ حکومت کی ان غیرمنطقی پالیسوں کی حمایت نہیں کرتے اور وہ سماج دشمن عناصر کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں میں رینجرز اور پولیس کے ساتھ کھڑے ہیں، کیونکہ گزشتہ دس سالوں کے دوران سب سے زیادہ دکھ پریشانیاں اور مالی و معاشی نقصانات کراچی کے عوام، تاجروں، طلبہ اور مزدوروں نے برداشت کیے ہیں جبکہ سیاسی اشرافیہ قومی وسائل کے لوٹ کھسوٹ میں اس حد تک مصروف رہی ہے کہ پاکستان کے اہم ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگے تھے اور ان کی تادیب کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ ضرب عضب اور ٹارگٹڈ آپریشن کی مشترکہ کارروائیوں نے کراچی سمیت ملک کو نیا استحکام اور عزم عطا کیا ہے۔ کرپٹ سیاست دان ملک سے فرار ہو چکے ہیں، اور باقی پاکستان کے اندر مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
2015ء کے پورے سال میں شمالی وزیرستان، خیبر ون اور خیبر ٹو میں فوجی کارروائیوں کی وجہ سے وہاں 75 فیصد سماجی اور امن عامہ سے متعلق حالات بہتر ہو گئے ہیں، باقی 25 فیصد بھی جلد بہتر ہو جائیں گے۔ اس دوران خطرناک دہشت گردوں کا (جنہیں غیرملکی امداد حاصل تھی) مکمل خاتمہ ہو چکا ہے۔ ان کارروائیوں میں زمینی فوج کے بہادر افسروں اور سپاہیوں کے علاوہ فضا میں پاکستان کی ایئرفورس نے اہم اور نمایاں حصہ لے کر وحدت پاکستان کو مزید مستحکم کیا ہے۔ دہشت گردوں پر یہ واضح ہوگیا ہے کہ اگر وہ پاکستان دشمنی سے باز نہ آئے تو مزید سخت ترین کارروائیاں کرکے ان کا مکمل قلع قمع کر دیا جائے گا۔ اب شمالی 
وزیرستان میں امن قائم ہونے کے باعث آئی ڈی پیز، کو واپس ان کے گھروں میں بھیجنے کا انتظام کیا جا رہا ہے، جو جلد مکمل ہو جائے گا۔ ان کی واپسی میں تاخیر کی وجہ وسائل کی کمی ہے، جو جلد پوری ہو جائے گی۔ نیز 2015ء میں ان سیاسی و مذہبی جماعتوں کو ہزیمت کا سامنا پڑا تھا جو ان دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کی حمایت کر رہے تھے، اور ان عناصر کی انسان دشمن کارروائیوں کو مذہب کا لبادہ پہنانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ سال رفتہ بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن اور انٹرنیشنل ورکنگ بائونڈری پر بلااشتعال فائرنگ کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کی فضا پیدا ہوگئی تھی، جو بعد میں اقوام متحدہ کے علاوہ امریکہ بہادر کی ڈپلومیسی کی وجہ سے ماند پڑگئی۔ دسمبر کے آخری دنوں میں بھارتی وزیر اعظم ماسکو سے کابل اور کابل سے اچانک لاہور آئے۔ یہ اچانک اور غیر متوقع دورہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کہاں تک اور کس حد تک بہتر تعلقات کا ضامن ہو گا، یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن اس ذاتی نوعیت کے دورے کے بارے میں میاں نواز شریف نے لب کشائی نہیں کی اور بعض اہم معاملات کو پردے میں رکھا، بلکہ صرف یہ کہا ہے کہ نریندر مودی کا لاہور کا دورہ صحیح جانب مثبت پیش رفت ہے۔ ان کے دورے سے قبل ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کی غرض سے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج پاکستان آئی تھیں، اور یہ پیغام دیا تھا کہ بھارت پاکستان کے ساتھ 
جامع مذاکرات کرنے کے لئے تیار ہے۔ نریندرمودی نے لاہور کا دورہ کرنے سے قبل کابل میں پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح کرتے ہوئے ایک بار پھر پاکستان پر دہشت گردی کا الزام عائد کیا اور کہا کہ افغانستان میں پاکستان طالبان کی حمایت کر رہا ہے۔ کیا نریندر مودی کے ان جملوں سے پاکستان کے لئے محبت کے پھول بکھر رہے تھے؟ دراصل 2015ء میں موجودہ سیاسی قیادت ملک کے معاملات کو احسن طریقے سے چلانے میں ناکام رہی ہے اور ہر محاذ پر موجودہ حکومت کی ناقص کارکردگی صاف نظر آرہی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے اور معاشی ترقی کے گراف کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں حکومت کے پاس کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آ رہی۔ گزشتہ پورے سال مملکت کا کاروبار عارضی بنیادوں پر چلایا جارہا تھا۔ دوستوں اور رشتہ داروں کو نوازنے میں حکمرانوں کا کوئی ثانی نہیں۔ انہیں اس ضمن میں آئین کی بھی پروا نہیں۔ 2015ء میں بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر تھی بلکہ غربت، مہنگائی اور بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ ہوا تھا۔ کرپشن تھوڑی بہت کم ہوئی‘ لیکن اب بھی بعض محکموں میں موجود ہے۔ گزشتہ سال یہ فرسودہ اور استحصالی نظام مزید مضبوط ہوا۔ امیر، امیر سے امیر تر ہو گیا ہے، جبکہ غریب سے غریب تر! فی الحال اس ظالمانہ نظام کو بدلنے کے لیے کسی بھی قسم کی طاقتور تحریک نظر نہیں آرہی۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاسی اشرافیہ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر ملک کے وسائل پر قابض رہے گی، جس کی حمایت سرمایہ دار اور سامراج کر رہے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں