قائد اعظم یاد آتے ہیں!

پاکستان کے موجودہ انتہائی ناگفتہ بہ حالات کو دیکھ کر جس میں بری طرز حکمرانی بھی شامل ہے، مجھے قائد اعظم محمدعلی جناح بہت یاد آرہے ہیں، بلکہ یاد آتے رہتے ہیں، انہوں نے اپنی ذہانت، لگن، خلوص، ایمانداری اور دیانت داری کے بلنداورروشن اصولوں کو عملی طور پر اپنا کر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی قیادت کرتے ہوئے ہمیں ایک آزاد مملکت پاکستان عطاکی، جس میں خدا کی حمایت ، خوشنودی اوررحمت اپنی تمام قوت و جبروت کے ساتھ شامل تھی۔ 1947ء میں پاکستان کا قیام ایک معجزے سے کم نہیں تھا۔ قائد اعظم کی بے لوث قیادت، نگاہ بلند اور ہمت واستقلال کی وجہ سے صرف سات سال کے عرصے میں پاکستان اقوام عالم میں ایک نمایاں قوم کی حیثیت سے ابھر آیا ۔اس کے قیام کا مقصد بر صغیر کے مسلمانوں کو جہاں ہندوئوں کے معاشی ، مذہبی اور ثقافتی تسلط سے آزاد کرانا تھا، وہیں انہیں مکمل آزادی کے ساتھ اپنی مذہبی اقدارکی روشنی میں ایک ایسا معاشی ، سماجی اور سیاسی ماحول تشکیل دینا تھا جس میں ریاست ایک فریق کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک رہنماہو‘ یہ قائد اعظم کی سوچ تھی۔دراصل ان کی پوری زندگی اعتدال اور رواداری پر مبنی تھی، یہی وجہ تھی کہ انہوںنے 11ستمبر کو کراچی میں دستور ساز اسمبلی سے خطاب کے دوران بڑی وضاحت سے اعلان کیا تھا کہ مملکت خداداد پاکستان 
میں ہر شخص کو اپنی مذہبی روایات اور انفرادی عقیدے کے تحت زندگی گزارنے کی مکمل آزادی ہوگی،لیکن تھوڑے عرصے کے بعد مملکت خداداد میں آہستہ آہستہ مذہبی منافرت پھیلنے لگی،اور ان کی تقریر سے متعلق ایک ایسی بحث چل نکلی جو آج تک وقفے قفے سے اخبارات کے صفحات کی زنیت بنتی رہتی ہے، حالانکہ ان کی تقریر نہ تو سیکولر خیالات کی عکاسی کرتی ہے، اور نہ ہی مذہبی سوچ کو ظاہر کرتی ہے۔ ان کا خیال صرف یہ تھا کہ پاکستان میںبسنے والے تمام مسلمانوں کو رواداری، اعتدال اور بقائے باہمی کے ساتھ زندگی بسر کرنی چاہئے، تاہم وہ ملائیت کے حق میںنہیں تھے، بلکہ اس کے خلاف تھے؛چنانچہ آج کا پاکستان قائد اعظم کے افکار سے دور ہو چکا ہے، بلکہ بھٹک گیا ہے، جس کی وجہ سے معاشرے میں ہر سو پھیلتی ہوئی افراتفری نظر آرہی ہے۔ سماج میں قائد اعظم کے زرّیں اصولوں اتحاد، تنظیم اور یقین محکم کا کوئی پتہ نہیں ہے، جبکہ ہر قسم کی عصبیت نے قومی اتحاد کو پارہ پارہ کردیا ہے، نیز وہ افراد اقتدار پر فائز ہوچکے ہیں، جن کے بزرگوں نے قیام پاکستان کی تحریک میں کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔ یہی افراد اس مملکت میں قومی وسائل کو لوٹ کر اپنے تصرف میں لاتے رہے ہیں‘ جس کی وجہ سے ریاست ہر گزرتے دن کے ساتھ کمزور سے کمزور تر ہوتی جارہی ہے ۔قائد اعظم کے یوم پیدائش کے موقع پر پاکستان کا ایک عام آدمی یہ سوچتا ہے کہ کیا یہی وہ پاکستان ہے جس کے حصول کے لئے بر صغیر کے لاکھوں مسلمان مردوں اور عورتوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا؟ اور کیا یہی وہ افکار یا نظریات ہیںجس کا پرچار قائد اعظم نے تحریک پاکستان کے دور ان اوراس کے قیام پاکستان کے بعد کیا تھا؟ ایسا نہیں ہے، پاکستان کو اس حال اور زوال تک پہنچانے میںہم سب کا حصہ رہا ہے، لیکن سب سے زیادہ کردار ان سیاست دانوں کا ہے جنہوںنے اقتدار کو عوام کی خدمت کرنے کے بجائے اپنے لئے 
اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے لئے ناجائز دولت حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ قائد اعظم ایک Self Madeشخص تھے، جنہوںنے وکالت کے ذریعہ اپنا نام اور مقام پیدا کیا تھا۔دیانت اور ایمانداری کا یہ عالم تھا کہ ان کے دشمن خصوصیت کے ساتھ انگریز حکمراں یہ کہنے پر مجبور تھے کہ'' محمد علی جناح کو کوئی خرید نہیں سکتا ہے‘‘۔ یہی وجہ تھی کہ بر صغیر کے مسلمانوں نے ان کی ولولہ انگیز قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے ان کی رہنمائی میں پاکستا ن کے لئے بے مثال جدوجہد کی اور آخر کار پاکستان کا حصول ممکن بنا دیا۔قیام پاکستان کے فوراً بعد کانگریس رہنما(بھارت کے اندر اور پاکستان کے اندر ان کے ہمنوا) یہ پروپیگنڈا کرتے رہے کہ پاکستان چند ماہ کے اندر ختم ہوکر بھارت میں ضم ہوجائے گا، لیکن پاکستان کے لئے بد خواہی رکھنے والوں کی یہ آرزو پوری نہیں ہو سکی ‘اور پاکستان اب تک قائم ہے، اور انشاء اللہ تا قیامت قائم رہے گا۔(مشرقی پاکستان کی علیحدگی ایک عالمی سازش کا نتیجہ تھا) ۔آج بھی بعض بد نصیب اور بد گوسیاسی عناصر پاکستان کی سیاست میں شامل ہوکر پاکستان کے مختلف صوبوں کے مابین نفرت پھیلارہے ہیں، اور قومی اتحاد کو مجروح کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ یہ وہی سیاست دان ہیں جنہوںنے اقتدار پر فائز ہونے کے بعد نام نہاد 
جمہوریت کے سائے میں لوٹ کھسوٹ کا وہ بازار گرم کیا ‘جس کی وجہ سے ایک طرف پاکستان اقتصادی طورپر کمزور ہوگیا تو دوسری طرف عوام کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوسکے ہیں۔مسائل حل نہ ہونے کی صورت میں سماجی بے چینی پاکستانی معاشرے کا ایک تکلیف دہ چہرہ بن چکی ہے، جس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ دولت کے چند ہاتھوں میں مرتکز ہونے اور انصاف کے نہ ہونے کے سبب انسانی حقوق کے تقاضوں کو جان بوجھ کر پامال کیا جارہا ہے۔ غربت میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے، جو اس حقیقت کی غمازی کررہا ہے کہ حکمران طبقے نے آئین کے تحت حلف اٹھانے کے بعد عوام کی مشکلات کا خیال نہیں رکھا، بلکہ جان بوجھ کر ان کو درپیش مسائل اور مصائب کو نظر انداز کرتے ہوئے ان میں اضافہ کیا۔
قائد اعظم ایک دیانت دار انسان تھے، ان کی بے لوث قیادت میں پاکستان کا قیام اس لئے عمل میں آیا تھا کہ یہاں ہر شخص کو معاشی وسماجی انصاف بلا امتیاز میسر آئے گا، آدمی کا آدمی کے ذریعہ استحصال نہیں کیا جائے گا، اور مساوات اور اخوت کی بنیاد پر معاشرہ آگے کی جانب سفر کریگا، لیکن معاشی و معاشرتی ترقی کا سفر بد دیانت سیاست دانوں کے کرتوتوں کی وجہ سے رک گیا ہے۔قائد اعظم یاد آرہے ہیں اور آتے رہیں گے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں