امریکہ میں چند روز

میں کل ہی امریکہ یاترا سے واپس آیا ہوں۔ تھکن ابھی برقرار ہے، اس کے ساتھ نیند نہ آنے کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ دراصل اتنے طویل فضائی سفر سے ایسا ہی ہوتا ہے، بالخصوص مجھ جیسے جسمانی طورپر کمزور شخص کے ساتھ۔ مجھے امریکہ میںپاکستانی دوستوں نے بلایا تھا اور شرط یہ تھی کہ ٹکٹ آپ خود خرید یں گے، قیام وطعام کے تمام معاملات کی ذمہ داری ان کی ہوگی۔ میں نے ان کی شرط منظور کرلی، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ میں ان کے ساتھ قیام نہیں کروںگا، بلکہ میرا قیام میری بیٹی کے پاس ہوگا۔ ملاقاتیں ضرور ہوںگی، لیکن امریکہ کی کچھ ریاستوں کا سفر تنہا بس کے ذریعہ میں خود کروںگا تاکہ یہ محسوس اور مشاہدہ کر سکوں کہ امریکہ میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بارے میں خود امریکی کیا سوچ رہے ہیں؟ اور ان کے پاس اس کا کیا توڑ ہے؟ 
میں یہ ضرور کہوںگا کہ اب امریکہ بدل گیا ہے۔ چند پاکستانیوں نے جس دہشت گردی کا بھیانک ارتکاب کیا، بالخصوص پاکستان کے مسلمان جوڑے نے پندرہ بے گناہ امریکی باشندوں کو جس بے دردی سے قتل کیا تھا، اس کی وجہ سے ایک بار پھر پاکستانی مسلمان امریکہ کی 'زد‘ میں آگئے ہیں۔ اسی پس منظر میں پاکستان کا مجموعی امیج ایک بار پھر انتہائی خراب اور خستہ ہوچکا ہے جبکہ اس صورت حال سے بھارتی کمیونٹی پورا پورا فائدہ اٹھا کر اور پاکستان کے خلاف نمک مرچ لگا کر اس کے اسلامی و معاشرتی تشخص کو خراب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دوسری جانب پاکستانی کمیونٹی امریکہ میں بالکل اسی طرح سے تقسیم اور بٹی ہوئی ہے، جس طرح پاکستان میں نظر آتی ہے۔ ان حالات کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے اور اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ پاکستانی کمیونٹی دیار غیر میں بھی آپس میں اتفاق و اتحاد پیدا کرنے میںکیوں ناکام ہے؟ اور یہ بھارتی کمیونٹی کے اتحاد کو دیکھ کر اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتی؟ مجھے اس سوال کا جواب نہیں مل سکا، لیکن سرنگ کے باہر روشنی کی کرن ضرور موجود ہے اور نظربھی آرہی ہے۔ کچھ خدا ترس پاکستانی ایسے بھی ہیں جو اپنے تئیں پاکستان کے امیج کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ امریکیوں کے ساتھ بڑھ چڑھ کر خیراتی کاموں میں سرمایہ فراہم کرتے ہیں اور وہاں کی دو بڑی سیاسی جماعتوں ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کو اپنی سوچ کے مطابق چندہ بھی دیتے ہیں۔ انہی پاکستانیوں کی بے لوث خدمت اور مثبت انداز فکر کی وجہ سے امریکہ کے بعض انتہائی با اثر افراد انہیںانتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کا پاکستان کے سلسلے میں رویہ ہمدردانہ ہوتا ہے، تاہم یہ لکھنا بہت ضروری ہے کہ امریکہ میں ہونے والی دہشت گردی میں چند نادان اور ناسمجھ پاکستانیوں کے علاوہ خود امریکی شہری بھی اس میں ملوث پائے گئے ہیں۔ مشی گن ( وہ ریاست جہاں فورڈ نے سب سے پہلی کار بنائی تھی) میں ایک ٹیکسی ڈرائیور نے کچھ بے گناہ امریکیوں کو بڑی بے دردی سے قتل کیا تھا جس میں ایک باپ اور اس کا جوان بیٹا بھی شامل تھا۔ اسی طرح سیاٹل میں ایک شخص نے شراب کے نشے میں چار امریکیوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا تھا۔ کنساس میں بھی ایسا ہی ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ چنانچہ دہشت گردی کے ان واقعات کے پس منظر میں امریکہ میں ایک بار پھر یہ بحث چل نکلی ہے کہ اسلحہ پر کنٹرول ہونا چاہیے یا نہیں؟
اب امریکہ کی اکثریت گن کنٹرول کی حمایت کر رہی ہے کیونکہ نئی نسل کے ذہنوں میں قتل کے ان واقعات سے انتہائی برے اور منفی اثرات پیدا ہورہے ہیں۔ ممکن ہے آئندہ عام انتخابات کے بعد کامیاب ہونے والی پارٹی گن کنٹرول کے سلسلے میں قانون ضرور بنائے گی تاکہ امریکی عوام اور خود امریکہ کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنایا جاسکے۔ ہوم لینڈ سکیورٹی کو قانون کی روشنی میں اب مزید مضبوط بنایاجا رہا ہے۔ افریقہ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا سے امریکہ میں داخل ہونے والوں پر کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے، خصوصاً نوجوانوں پر جو تعلیم کے حصول کے لئے تعلیمی ویزا لے کر امریکہ جاتے ہیں۔ پاکستانی پاسپورٹ دیکھ کر سکیورٹی اہلکار مسکراتے ہیں، البتہ اگر آپ سینئر سٹیزن ہیں تو آپ کو کچھ نہیں کہتے کیونکہ سینئرز کو امریکی بڑی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور انہیں اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ یہ ''بزرگ‘‘ کسی بھی لحاظ سے امریکہ کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ نوجوانوں سے کئی سوالات کئے جاتے ہیں اور ان سے پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان میں کسی انتہا پسند تنظم سے وابستہ تو نہیں رہے؟ اگر کوئی جھوٹ بولے تو امریکی اس کو اس کا پروفائل دیکھا کر کہتے ہیں کہ تم جھوٹ بول رہے ہو، اس لئے تمہیں واپس بھیجا جا رہا ہے۔ 
اس وقت امریکہ میں نومبر میں صدارتی انتخابات کے حوالے سے دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے درمیان گھمسان کی سیاسی جنگ جاری ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں مجھے بعض بااثر ری پبلکن ارکان نے بتایا ہے کہ انہیں پارٹی کی طرف سے یقینی طور پر صدارتی امیدوار کی حیثیت سے امریکی عوام کے سامنے پیش کیا جائے گا جبکہ ہلیری کلنٹن کو ڈیمو کریٹک پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے ٹکٹ مل جائے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ جو امیر کبیر آدمی ہیں، انہیں سیاہ فام امریکی نسل پرست قرار دے رہے ہیں۔ اسی طرح مسلمانوںکی اکثریت بھی مسلمانوں کے خلاف ان کے خیالات کی وجہ سے انہیں تشویش کی نظر سے دیکھ رہی ہے، لیکن اس کے با وجود امریکیوں کی اکثریت برملا کہہ رہی ہے کہ ٹرمپ نے امریکی سیاست میں اپنے خیالات کی وجہ سے ہلچل مچادی ہے اور امریکی ووٹروں کو نئے انداز سے سوچنے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔ بقول ایک مستند امریکی دانشور Mr. Trump has galvanised the Amircan Society ۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ صاحب بڑی امریکی ریاستوں میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ ہلیری کلنٹن کی تقریروں میں زیادہ جوش و جذبہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بارک اوباما کی پالیسیوں کا تسلسل قائم رکھنے کے ساتھ انہیں مزید تقویت پہنچائیں گی۔ (جاری) 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں