سندھ میں امن عامہ کی صورتحال

اس حقیقت کو پاکستان کے تمام با شعور لوگ‘ خصوصاً سندھ کے عوام کی اکثریت یہ بات بخوبی جانتی ہے کہ پی پی پی کی قیادت نہ صرف نا اہل ہے بلکہ اسے کراچی میں سماج دشمن عناصر کی بیخ کنی کے سلسلے میں بھی کوئی دلچسپی نہیںہے۔ اس افسوسناک صورتحال کا اظہار سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کراچی میں رینجرز کی رپورٹ کے حوالے سے کیا ہے۔ رینجرز کے ترجمان نے بھی بغیر کسی لگی لپٹی کے یہ کہا ہے کہ سندھ حکومت بد عنوان عناصر کو گرفتارکرنے سے نہ صرف روکتی ہے بلکہ مزاحمت بھی کرتی ہے۔ حکومت کا سربراہ اور بعض وزراء اپنے مرضی کے تھانے چاہتے ہیں، اس پر چیف جسٹس صاحب نے آئی جی سندھ اور چیف سیکرٹری پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں حکم دیا ہے کہ وہ آئندہ رینجرز کی رپورٹ کی روشنی میں اپنا تفصیلی بیان داخل کریں۔ انہوںنے واشگاف الفاظ میں کہا کہ کراچی امن رینجرز کی وجہ سے آیا ہے جبکہ پولیس افسران تو خود اغوا برائے تاوان میں ملوث رہے ہیں، چار ہزار اشتہاری ملزم شہر میں دندناتے پھررہے ہوں گے تو شہر کا کیا حال ہوگا؟ سندھ حکومت دہشت گردوں کے علاوہ ان کے سہولت کاروں کو گرفتار کرنے میں سخت مزاحمت کر رہی ہے، بلکہ بالواسطہ ان کی مدد بھی کررہی ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کی یہ آبزرویشن کراچی کے سینئر صحافیوں اور کالم نگاروں کیلئے نئی نہیں ہے۔ رینجرز نے جب پی پی پی کے علاوہ ایم کیو ایم اور اے این پی کے بعض بد عنوان عناصر کو گرفتار کیا تھاتو سندھ حکومت میں گھبراہٹ طاری ہوگئی، اور رینجرز کے خلاف ایک محاذ کھول دیا 
گیا تھا ، یہاں تک کہ مبینہ طور پور رینجرز کے بعض اہلکاروں کو قتل کرکے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ وہ ''بڑے لوگوں‘‘ پر ہاتھ نہ ڈالیں، دوسری طرف رینجرز کے اختیارات کو کم کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی، لیکن سندھ حکومت اس میں کامیاب نہیںہوسکی، کیونکہ رینجرز کو کراچی کے علاوہ سندھ کے عوام کی حمایت حاصل ہے۔ گزشتہ دس پندرہ سالوں میں کراچی میں جو کچھ بھی ہوا ہے وہ ایک المناک داستان ہے، شہرجل رہا تھا، معصوم بے گناہ لوگ قتل ہورہے تھے، ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ بھتہ خوری اپنے عروج پر تھی، اس صورتحال کا تدارک کرنے والا کوئی نہیں تھا، حالانکہ حکومت موجود تھی، جس میں دیگر سیاسی پارٹیاں شامل ہو کر وسائل سے فائدہ اٹھارہی تھیں لیکن حالات کو سدھارنا نہیں چاہتی تھیں، اس تباہ کن صورتحال سے جب فوج نے میاں نواز شریف کو آگاہ کیا کہ اگر کراچی تباہ ہوگیا (جس کو اس وقت تباہ کرنے کی کوشش کی جارہی تھی) تو ملک معاشی طورپر مفلوج ہوسکتاہے، کیونکہ کراچی سے موصول ہونے والے ٹیکسوں کی وجہ سے بہت حد تک پاکستان کی معیشت سنبھلی ہوئی ہے، مزید برآں وزیراعظم نواز شریف کو خود بھی اس بات کا ادراک تھا کہ کراچی کو منظم سازش کے ذریعہ تباہ کیاجارہا ہے، تاکہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کیا جاسکے۔ خود انہوںنے متعدد بار یہ کہا تھا کہ کراچی میں بد امنی کی وجہ سے سرمایہ باہر منتقل ہورہاہے۔ چند سالوں سے بڑے بڑے صنعت کار اپنا سرمایہ خلیج کی ریاستوں کی طرف منتقل کر رہے تھے، جبکہ 
چھوٹا کاروباری طبقہ بھی متاثر ہو رہا تھا، چنانچہ سیاسی اور عسکری قیادت نے یہ فیصلہ کیا کہ پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے، اس لئے ٹارگٹ آپریشن شروع کیاجائے اور رینجرز کو کراچی میں امن وامان کے قیام کے لئے وہ تمام اختیارات دیے جائیں تاکہ یہ شہر بغیر کسی رکاوٹ کے اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے، چنانچہ اس آپریشن کو شروع ہوئے دو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، معاشی وسماجی حالات آہستہ آہستہ بہتر ہورہے ہیں، لیکن وہ قوتیں جن کے بارے میں چیف جسٹس صاحب نے رینجرز کی رپورٹ کے حوالے سے اظہار خیال کیاہے، ہنوز فعال ہیں اور بدعنوان عناصر کی سرپرستی کرنے سے باز نہیں آرہیں۔ بگڑتے ہوئے حالات کو سنبھالنے اور سدھارنے کے لئے آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیاجس نے بہت حد تک دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے، خصوصیت کے ساتھ فاٹا میں‘ جہاں غیر ملکی طاقتیں اس خطے کے عوام کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہی تھیں، یہاں تک کہ ان بیرونی طاقتوں نے چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کو اپناہدف بنالیا تھا۔اس کامقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں تھا کہ چین اور پاکستان کے مابین منصبوط رشتوں کو کمزور کیا جاسکے، لیکن یہ عناصر اپنے مکروہ عزائم کامیاب نہیںہوسکے۔ دوسری طرف چین نے بھی اپنی سرحدوں کے اندر دہشت گردوں کے خلاف منظم کارروائیاں کرکے انہیں بہت حد تک نیست ونابود کردیاہے، پاکستان نے اس کارروائی میں چین کی مدد کی ہے، دہشت گردی صرف پاکستان کا نہیں ہے بلکہ عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔
چنانچہ کراچی میں بدامنی اور لاقانونیت کا سدباب کرنے میں رینجرز کے کردار کی عوام کی اکثریت تعریف کررہی ہے، اور 
ان کی غیر مشروط حمایت بھی کررہی ہے، لیکن سندھ کی صوبائی حکومت جن کے ارکان کی اکثریت وڈیروں کا استحصالی پس منظر رکھتی ہے، وہ دل سے کراچی میں مکمل امن نہیں چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ چیف جسٹس صاحب نے آئی جی سندھ کو ہدایت کی ہے کہ آئندہ پیشی میں رینجرز کی شکایت کے پس منظر میں اپنی رپورٹ پیش کریں، حقیقت تو یہ ہے کہ پی پی پی کی ماضی کی مرکزی حکومت نے جس دیدہ دلیری سے پاکستان کے وسائل کو لُوٹا ہے اور کرپشن کو پاکستان کی سیاست میں کلچر کا حصہ بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی تھی، اب ان کی باقیات سندھ حکومت میں اسی فلسفے پر گامزن ہے اور جرائم پیشہ عناصر کو گرفتار کرنے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے، تاکہ ان کے ذریعہ جو ناجائز آمدنی حاصل ہوتی ہے وہ ہوتی رہے۔ وہ تھانوں میں بھی اپنا اثر ورسوخ بھی قائم رکھنا چاہتے ہیں، سندھ حکومت کی جانب سے یہ تمام غیر آئینی کام اور کوشش ٹارگٹڈ آپریشن کو ناکام بنانے کی ایک گہری سازش ہے، سپریم کورٹ اس صورتحال سے واقف ہے اور احساس بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ جناب ظہیر جمالی صاحب کو یہ کہنا پڑا کہ یہ لوگ جمہوریت کے نام پر عوام کو دھوکہ دیتے ہیں، حالانکہ ان کا جمہوریت یا جمہوری روایت یا اقدار سے دور دور کا واسطہ نہیں ہے، اگرہوتا تو یہ قانون کی بالادستی کی روشنی میں جرائم پیشہ عناصر کی بیخ کنی کرنے میں رینجرز کی مدد کرتے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں