کرکٹ ڈپلومیسی کے ذریعے بھارت کے ساتھ خوشگوار تعلقات کے قیام کی تمام امیدیں نقش برآب ثابت ہورہی ہیں۔ بھارت کا انتہا پسند معاشرہ جس کی آبیاری آر ایس ایس اور شوسینا نے کی ہے، پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو بھارت کی سرزمین پر برداشت کرنے کو کبھی بھی تیار نہیںہوا ۔ بھارت کی جانب سے ایک بار پھر یہ بے بنیاد اور لغو الزام ہے کہ پاکستان کی طرف سے انتہا پسندوں کے حملے بڑھتے جارہے ہیں حالانکہ دوسری طرف بھارت خود پٹھان کوٹ پر حملے کے سلسلے میں پاکستان کے ساتھ کسی قسم کی تحقیقات کے سلسلے میں تعاون نہیں کررہا۔اس طرح یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان مجوزہ سیکرٹری سطح پر بات چیت بھی ممکن ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔
چنانچہ پاکستان کی موجودہ حکومت کو بھارت نوازی کا انداز ترک کرکے اپنے ملک کی بقاء اور ترقی کی طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے، خصوصیت کے ساتھ ان عناصر کی بیخ کنی کی اشد ضرورت ہے جو اس وقت بھی بلوچستان کے بعض اضلاع اور کراچی میں موجود ہیں، اور موقع ملنے پر اپنی مذموم کارروائیاں کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ ماضی میں یہ سب کچھ ہواہے، جبکہ ماضی کی حکومتوں نے ان کا سدباب کرنے کے سلسلے میں نیم دلی سے اقدامات کئے تھے جس کا کچھ بھی نتیجہ نہیں نکل سکا تھا، بلکہ معاشی اور سماجی حالات خراب سے خراب ترہوتے چلے گئے تھے۔ اگر ٹارگٹڈ آپریشن شروع نہ کیا جاتا تو کراچی تقریباً تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا تھا۔ اس کا کریڈٹ رینجرز کو جاتا ہے، جیسا کہ میں اپنے گزشتہ کالم میں لکھ چکا ہوں ، تاہم پاکستان کی جانب سے بھارت کے ساتھ دوستی کے سلسلے میں جو اقدامات کئے جارہے ہیں، مثلاً بڑی تعداد میں بھارتی ماہی
گیروں کو رہا کرکے انہیں عزت کے ساتھ واپس بھارت بھیجنے سے بھی بھارت کے رویے میں فرق نہیں پڑرہا ۔ حال ہی میں پاکستان کی جانب سے بھارتی گجرات اور دہلی میں دہشت گرد کے حملوں سے متعلق جو اطلاعات فراہم کی گئی تھیں، اس نے بھی بھارتی رویے کو بدلنے میں کسی قسم کا کردار ادا نہیں کیا۔دوسری طرف بھارتی میڈیا نے یہ تاثر دیا ہے کہ پاکستان یہ سب کچھ بھارت کے ساتھ ڈر کے کررہا ہے، کہ کہیں بھارت کی جانب سے حملہ نہ ہوجائے۔ پاکستان کے اندر بھی یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ پاکستان کیوں بھارت کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتاہے۔ کیا اس طرح بھارت کی حکومت کے دل میں پاکستان کے لئے نرم گوشہ پیدا ہوجائے گا!میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ہوسکے گا، نیزبھارت پاکستان کا عالمی سطح پر امیج بگاڑنے کی کوشش میں ہے۔ مغربی ممالک بہت حد تک بھارتی پروپیگنڈے کے زیر اثر آ چکے ہیں، جو کہ انتہائی تکلیف دہ بات ہے، چنانچہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تکلیف دہ صورتحال کے پیش نظر پاکستان کو کیا کرنا چاہئے اور وہ کون سے اقدامات اٹھانے چاہئیں جن کی مدد سے پاکستان بھارت کے سامنے اپنی حیثیت منوا سکے۔ پہلا قدم تو یہ ہونا چاہئے کہ خلوص اور دلجمعی کے ساتھ پاکستان کے عوام کے معاشی مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ معیشت کو مستحکم بنانے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے۔ جدید عہد میں صرف اقتصادی ترقی کے ذریعے ہی خارجہ پالیسی کے مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں ورنہ غیر ملکی امداد پر انحصار کرتی ہوئی معیشت سے نہ تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتاہے، اور نہ ہی عالمی سطح پر اس کی کوئی خا ص اہمیت اور پذیرائی ہوسکتی ہے۔
بھارت کی طرف عالمی طاقتوں کا بڑھتا ہوا رجحان اس بات کی غمازی کررہا ہے کہ بھارت معاشی طور پر مضبوط ہورہاہے، اور جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی مارکیٹ بن چکا ہے، جہاں پر ہرطرف سے سرمایہ کار آ کر سرمایہ لگا رہے ہیں اور اس کی معیشت کو مزید تقویت پہنچانے کیلئے ضروری ٹیکنالوجی بھی فراہم کررہے ہیں۔ جس دن پاکستان کے ارباب حل وعقد نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے سلسلے میں خوشامدانہ انداز ترک کردیا تو یقینی طورپر پاکستان کے حالات بتدریج بہتری کی طرف گامزن ہوسکتے ہیں، کیونکہ بھارت کی حکومت اور اس کی بیوروکریسی کے ذہن میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ پاکستان ناقص طرز حکمرانی کی وجہ سے کمزور ہوچکاہے اور بھارت سے خوفزدہ نظر آرہا ہے۔ اسی لئے پاکستان بھارت کے ساتھ کسی بھی صورت میں اپنے تعلقات بہتر بنانا چاہتا ہے۔ بھارتی حکومت کے ان خیالات کو صرف اپنی معاشی قوت اور عوام کے سماجی حالات کو بہتر بناکر زائل کیا جا سکتا ہے‘ وگرنہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بھارت اس خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے لئے پاکستان کو اپنے ایجنٹو ں کے ذریعہ کمزور کرتا رہے گا۔ گزشتہ روز بلوچستان سے را کا ایک حاضر سروس افسر ایجنٹ کے طور پر کام کرتا پکڑا گیا۔ اس کا کام ظاہر ہے تفرقہ پھیلانا اور دہشت گردی تھا۔ اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے رنگے ہاتھوں پکڑا۔ یہ تو ایک افسر تھا۔ اس طرح کے نہ جانے کتنے بھارتی ایجنٹ ملک میں خفیہ کارروائیاں کر رہے ہوں گے۔ ان پر نظر رکھنی ضروری ہے۔ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اردگرد نظر رکھیں اور ایسے افراد جو مشتبہ کارروائیاں کرتے نظر آئیں ان کے بارے میں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اطلاع دیں۔ را کے ایجنٹ کی گرفتاری دراصل بہت بڑی کامیابی ہے۔ حکومت پاکستان کو یہ معاملہ بھارت کے سامنے ڈٹ کر اٹھانا چاہیے اور اسے عالمی فورم پر بھی لے جانا چاہیے تاکہ دنیا بھارت کے اصل چہرے کے بارے میں جان سکے۔ بھارت افغانستان میں بھی اپنے اڈے قائم کر چکا ہے جہاں سے اس کے ایجنٹ سرحد پار کر کے پاکستان آ جاتے ہیں اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ اتنہائی سنگین جرم ہے۔ بھارت کو اس کی بھاری قیمت چکانا ہو گی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اس معاملے کو نظر انداز کر دیا جائے۔ کوئٹہ میں حالات خراب کرنے میں یہ بھارتی کا بہت ہاتھ ہو گا کیونکہ یہ نجانے کتنے عرصے سے وہاں مقیم تھا ۔ اس کی گرفتاری کے بعد اس کی اطلاعات کی روشنی میں مزید چھاپے مارے جائیں گے جن میں سکیورٹی فورسز کو مزید دہشت گرد عناصر اور ان کے سہولت کاروں کو گرفتار کرنے میں مدد ملے گی۔
اس صورتحال کے پیش نظر کرکٹ ڈپلومیسی کا وقت گزر چکا ہے۔ مرحوم ضیاالحق نے اس ڈپلومیسی کا آغاز کیا تھا، وہ وقت اور تھا یہ وقت اور ہے۔ اس وقت اقتدار پر براجمان حکمرانوں کی ترجیحات کچھ ہیں جبکہ ضیا الحق مرحوم نے ایسا نہیں کیا تھا، یہی وجہ ہے کہ بھارت حقیقی معنوں میں پاکستان کے ساتھ اچھے ہمسائیگی کے تعلقات قائم کرنے میں نہ تو دلچسپی کا مظاہرہ کررہا ہے، اور نہ ہی اسے پروا ہے۔ دوسری طرف ہم ایٹمی طاقت ہوتے ہوئے کچھ ایسا انداز اختیار کررہے ہیں جو ہمارے لئے مناسب نہیں۔ بہتر ہو گا کہ بھارت کے ساتھ اسی کے انداز اور اسی کی زبان میں بات کی جائے۔ کرکٹ ڈپلومیسی کا وقت گزر گیا۔ کھل کر دنیا کو بتایا جائے کہ بھارت افغانستان کے ساتھ مل کر کس طرح پاکستان میں دہشت گردی کرا رہا ہے تاکہ یہ باور کرایا جا سکے کہ ساری خرابی دراصل بھارت پیدا کر رہا ہے۔