تحریک انصاف کے چیئر مین جناب عمران خان نے قوم سے اپنے اہم خطاب میں وا شگاف الفاظ میں میاں نواز شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ پاناما لیکس کے بعد ان کا اقتدار میں رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اسی قسم کا مطالبہ جماعت اسلامی نے بھی کیا ہے۔ پی پی پی کے معروف رہنما جناب اعتزاز احسن نے بھی بڑی وضاحت سے اپنے مخصوص انداز میں پاناما لیکس کا تجزیہ کرتے ہوئے جناب نواز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم عوامی مطالبے کے پیش نظر ایسا کریںگے؟ میرا خیال یہ ہے کہ غالباً وہ اس مطالبے کی مزاحمت کریں گے۔ ان کے پاس ایسے خوشامدیوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو ان کی دھاندلیوں، منی لانڈرنگ اور کرپشن کو جائز قرار دینے کے سلسلے میں ایسے جوازپیش کریں گے بلکہ کر رہے ہیں جنہیں سن کر افسوس ہوتا ہے۔ کیا ایسے لوگوں کا کوئی ضمیر ہے؟ کیا انہیں پاکستان کے آئین میں شامل 62-63 جیسی شقوں کا کوئی احترام نہیں ہے؟ کیا ان کے ذہن میں اسلامی اقدار کا بھی کوئی پاس نہیں ہے؟ مجھے ایسا نظر آ رہا ہے کہ ان لوگوں کو آئین کا کوئی احترام ہے نہ اسلامی اقدار کا، یہی وجہ ہے کہ عوام کی دولت کو ''جمہوریت‘‘ کے نام پر لوٹ کر دن دہاڑے کسی خوف کے بغیر بیرونی ممالک میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ اس پس منظر میں عمران خان کا مطالبہ جائز ہے۔ یہ مطالبہ عوام کی اکثریت کی طرف سے کیا جا رہا ہے جس کو حکمران پرِ کاہ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ اگر حکمرانوں کے ذہن میں عوام کی بہبود اور فلاح کا خیال ہوتا تو دولت کمانے کا ناجائز طریقہ استعمال نہ کرتے۔ ہمارے حکمران سیاست دان نہیں ہیں اور نہ ہی کسی قسم کے سیاسی افکار سے وابستہ رہے ہیں، بلکہ یہ تاجر ہیں اور اقتدار کے سائے میں تجارت کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے بعض قریبی جاننے والوں کا کہنا ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ میاں صاحب نے اپنی غلطیوں اور خامیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا، وہ سرکاری امور انجام دینے سے پہلے اپنی کاروباری ایمپائر کے بارے میں اپنے منیجروںسے باز پرس کرتے ہیں، انہیں مشورہ دیتے ہیں اور اس کے بعد ملکی امور سے متعلق کام شروع ہوتا ہے۔ اس دوران ان کے چاپلوس دوست انہیں مختلف بین الاقوامی کمپنیوں کے سمجھوتوں کے بارے میں بتاتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اس میں وزیراعظم صاحب کو کتنا فائدہ ہوگا۔ حکمران مملکت خدا داد پاکستان کو اس طرح چلارہے ہیں کہ ان کا ذاتی مفاد ملک پر مقدم رہتا ہے۔
اس گمبھیر صورت حال کا حل کیا ہے؟ اس کا ازالہ کون کرے گا؟ اورکیا وزیراعظم کے خاندان کی جانب سے کی جانے والی مبینہ بدعنوانیوں کے لئے مزید کوئی ثبوت درکار ہے؟ اگر پاناما لیکس میں شریف خاندان کی ناجائز دولت اور بدعنوانیوں کے بارے میں حقائق وشواہد نہ ہوتے تو ان کا نام کیوں آتا؟ ان حقائق اور شواہد کی روشنی میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں اگرکوئی کمشن قائم ہوجاتا ہے، جس کا مطالبہ عمران خان کے علاوہ دیگر
سیاسی جماعتوں نے بھی کیا ہے تو اس میں حرج کیا ہے؟ وزیراعظم صاحب کیوں خوف زدہ ہیں؟ اگر ان کا دامن صاف ہے تو پھر برطانوی وزیراعظم کی طرح عوام کے سامنے آئیں اور اپنی غلطیوں کو تسلیم کریں، پاناما لیکس میں جس دھن دولت کا انکشاف کیا گیا ہے اسے واپس لائیں جو اصل میں پاکستان کے عوام کی ملکیت ہے۔ میرا اپنا ذاتی خیال یہ ہے کہ چیف جسٹس ظہیر جمالی صاحب کوازخود نوٹس لیتے ہوئے وزیراعظم کو عدالت کے سامنے پیش ہونے کا حکم صادر فرمانا اور ان سے اس انتہائی اہم قومی مسئلے پر باز پرس کرنا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو پھر خلق خدا سڑکوں پرضرور نکلے گی جسے اس حکومت نے اور ماضی کی حکومتوں نے کچھ نہیں دیا ماسوائے افلاس، تنگ دستی اور محرومیوں کے۔
ناجائز اور غلط طریقے سے کمائی ہوئی دولت کا ایک ناقابل تلافی نقصان جو پاکستان کو پہنچ رہا ہے اس کا تعلق ٹیکس ادا نہ کرنے سے ہے۔کالے دھن پر پاناما میں ناجائز دولت کے ذریعے جو واجب الادا ٹیکس بچایا جارہا ہے اس کی مالیت اربوں روپے بنتی ہے۔ اس روپے کی پاکستان کو اشد ضرورت ہے۔ پاکستان سمیت تمام ممالک کا کاروبار ٹیکسوں کی ادائیگی سے چلتا ہے، اگر امیر طبقہ اور دیگر صاحب ثروت افراد ٹیکس ادا نہیں کریں گے تو مملکت کا کاروبار کس طرح چلے گا؟ اس وقت پاکستان میں صرف گیارہ لاکھ افراد ٹیکس ادا کر رہے ہیں، کیا اتنی چھوٹی آمدنی سے مملکت کا کاروبار چل سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ حکومت کشکول گدائی لے کر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے پاس جاتی ہے تاکہ ان کی حاجت پوری ہو سکے۔
میاں نواز شریف کی حکومت نے گزشتہ تین سال میں بیرونی ممالک سے جو قرضہ لیا ہے وہ سابقہ حکومت سے دوگنا ہے۔ اس طرح پاکستان کا ہر شہری، بڑا ہو یا چھوٹا ایک لاکھ گیارہ ہزار روپے کا مقروض ہوچکا ہے۔ یہ قرضہ کون ادا کرے گا؟ اگر پاکستان پر خدا نخواستہ کوئی برا وقت آن پڑا تو یہ لوگ اپنا ساز و سامان لپیٹ کر باہر فرار ہو جائیں گے، جن کا وہاں کاروبار پہلے ہی چل رہا ہے، اس لئے عمران خان کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ میاں نواز شریف کا اقتدار میں رہنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے، وہ استعفیٰ دے کر اپنی پارٹی کے کسی دوسرے فرد کو وزیراعظم بنادیں اور خود اللہ اللہ کرکے اپنے گناہوںکی معافی مانگیں۔