سارک چیمبر وفد کا دورہ افغانستان

سارک چیمبر کے ایک وفد نے جس میں پاکستان کے معروف صنعت کار بھی شامل تھے، حال ہی میں افغانستان کا دورہ کیا۔ اس دورے کا مقصد افغانستان کو سارک تنظیم کے مختلف پہلوئوں سے اجاگر کرنے کے علاوہ سارک تنظیم میں شامل ملکوں کے درمیان تجارت کو فروغ دینا بھی شامل ہے (یاد رہے کہ افغانستان بھی سارک تنظیم میں شامل ہے۔) وفد نے اپنے تین روزہ قیام کے دوران افغانستان کے صدر جناب اشرف غنی کے ساتھ طویل ملاقاتیں کیں اور ان سے سارک تنظیم کی فعالیت کے علاوہ پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات پر تبادلہ خیال کیا۔ اشرف غنی کے بارے میں سارک ممالک کے وفد کا خیال ہے کہ وہ اپنی ذات میں ایک مہذب اور پڑے لکھے انسان ہیں۔ انہوں نے ورلڈ بینک میں ملازمت کی ہے اور امریکہ کی بعض درسگاہوں سے استفادہ بھی کیا ہے۔ انہیں انگریزی زبان پر مکمل عبور حاصل ہے۔ وہ عالمی سطح پر ایک ماہر معاشیات کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔
بحیثیت صدر وہ افغانستان کی ترقی بالخصوص افغانستان میں غربت کے خاتمے کے لئے بہت کوشاں ہیں، لیکن ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ افغانستان کی معیشت کی حالت انتہائی خستہ ہے۔ اس کی ترقی کا سارا دار و مدار غیر ملکی امداد سے وابستہ ہے۔ ادھر افغان طالبان کی مرکزی حکومت کے خلاف مسلح جنگ نے افغانستان کی مجموعی ترقی کے راستے مسدود کردیئے ہیں؛ تاہم اشرف غنی کا خواب یہ ہے کہ اگر پاکستان، افغانستان اور ایران کے درمیان تعلقات میں بہتری آجاتی ہے تو یہ پورا خطہ ایک طرح کی اکنامک یونین بن سکتا ہے، جس سے یہاں غربت میں کمی واقع ہوسکتی ہے اور اس طرح غیر ملکی تجارتی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوسکتاہے۔ صدر اشرف غنی کے اس خیال سے کسی کو کیا اختلاف ہوسکتا ہے، اسی قسم کا خواب جنرل حمید گل مرحوم بھی دیکھا کرتے تھے اور ان کی یہ خواہش تھی کہ اگر یہ تینوں ممالک اپنے باہمی اختلافات ختم کرکے ایک ہوجائیں تو اس خطے میں معاشی سرگرمیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوسکتا ہے، جس سے عام آدمی کی زندگی بہتر ہوسکتی ہے، لیکن حمیدگل اپنا یہ خواب لے کر اس دنیا فانی سے چلے گئے ہیں (خدا ان کی مغفرت کرے، آمین!) اب یہی خواب اشرف غنی بھی دیکھ رہے ہیں، لیکن شاید ان کا یہ خوا ب بھی خواب ہی ثابت ہوگا، اس کی تعبیر بہت مشکل ہے۔ 
اس کے باوجود انہوںنے سارک وفد سے یہ درخواست کی ہے کہ بھارت اور افغانستان کے درمیان راہداری کو مکمل طورپر کھول دینا چاہئے۔ یہ راہداری پاکستان سے گزرتی ہے۔ پاکستان افغانستان کا تجارتی مال بھارت بھیجنے میں مدد کررہا ہے، لیکن اشرف غنی کی یہ خواہش ہے کہ بھارت کا تجارتی سامان اسی راہداری سے سیدھا افغانستان آسکے۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کے ملک نے بھارت کے کئی قونصلیٹ قائم کر رکھے ہیں جو پاکستان کے اندر گڑبڑ کرتے رہتے ہیں، بلکہ ''را‘‘ بھی افغانستان کے اندر خاصی محترک اور فعال ہے، آپ اس کو روکنے کی کوشش کیوں نہیںکرتے تو وفد کا یہ سوال سن کر وہ خاموش ہوگئے۔ دراصل ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیںتھا۔ اشرف غنی اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھارت افغانستان کی خارجی اور داخلی معاملات میں افغان حکومت کی''مشاورت‘‘ سے دخل اندازی کررہا ہے، جب تک افغانستان اپنی سر زمین سے پاکستان کے خلاف دراندازی روکنے کی بھرپورکوشش نہیںکرے گا افغانستان اور پاکستان کے درمیان اچھے ہمسائیگی کے تعلقات قائم نہیں ہوسکیں گے۔ 
سارک تنظیم کے وفد نے سابق صدر حامد کرزئی سے بھی ملاقات کی۔ حامد کرزئی بھارت کی طرح پاکستان کا دشمن ہے۔ یہ شخص نو سال تک کوئٹہ میں قیام پذیر رہا، یہاں اس کا اپنا گھر بھی تھا، لیکن جب مغربی ممالک خصوصیت کے ساتھ امریکہ نے اس پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور جرمنی کے تعاون سے افغانستان سے متعلق کانفرنس کے دوران اس کو صدارت کے منصب پر فائز کردیا گیا تو اس کا دماغ پھر گیا۔ حامد کرزئی پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں۔ امریکی امداد کا نصف حصہ اس نے اور اس کے بھائیوں اور رشتہ داروں نے بے دریغ لوٹا ہے، بلکہ اس کا ایک بھائی ولی کرزئی کو قندھار میں قتل بھی کردیا گیا تھا۔ پاکستان کے متعلق اس کے خیالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، آج بھی وہ پاکستان کو افغانستان کی موجودہ صورت حال کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ اس قسم کے خیالات کا اظہار اس نے اس وقت بھی کیا تھا جب وہ افغانستان کا صدر تھا۔
اشرف غنی کو کراچی کی بندرگاہ سے افغانی سامان کی Handling سے متعلق شکایتیں ہیں۔ بقول ان کے افغانی سامان کی سخت جانچ پڑتال کی جاتی ہے جس کی وجہ سے سامان بڑی تاخیر سے کابل اور دیگر شہروں میں پہنچتا ہے۔ انہوںنے کہا کہ بہت جلد افغانی سامان چاہ بہار کی بندرگاہ سے افغانستان آئے گا۔ ان کا یہ جملہ شاید ایک قسم کی دھمکی ہو، لیکن چاہ بہار ایک فطری پورٹ نہیں اور نہ ہی گوادر بندر گاہ کی طرح زیادہ گہری ہے، اس لئے سارک ممالک کے وفد کا خیال تھا کہ شاید ایسا ممکن نہ ہو سکے گا۔ لیکن اشرف غنی ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان سے دور ہوتے جا رہے ہیں؛ حالانکہ یہ دوری افغان حکومت خود کسی اور کے ایما پر پیدا کر رہی ہے۔ دوسری طرف پاکستان ہر طرح سے افغانستان کی مدد کر رہا ہے، یہاں تک کہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی غیر معمولی کوششیں بھی کر رہا ہے، لیکن اس کے باوجود افغان حکومت کا رویہ پاکستان دشمنی پر مبنی ہے جو نظر آرہا ہے۔ غالباً اس طرح افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ افغانستان میں بدامنی، لاقانونیت اور دہشت گردی پھیلنے کی وجہ سے پاکستان پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اب افغانستان (امریکہ کے دبائو پر) سارک تنظیم کارکن بن چکا ہے۔ اس کے رکن بن جانے سے ایک طرف تو اس تنظیم میں بھارت کا پلہ بھاری ہوگیا ہے (افغانستان ہر معاملے پر بھارت کی حمایت کرے گا) تو دوسری طرف اس تنظیم میں پہلے ہی موجود اختلافات میںمزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس طرح یہ تنظیم غیر فعال رہے گی۔ 
تجارت اسی وقت فروغ پا سکتی ہے جب سیاسی تعلقات اچھے ہوں، لیکن سارک تنظیم کے بعض ممالک کے بھارت کے ساتھ تعلقات خراب ہیں، اس لئے اس تنظیم کا فعال ہونا اور اس کے پلیٹ فارم سے ان ملکوں کے درمیان باہمی تجارت کا فروغ ممکن نظر نہیں آ رہا ہے۔ افغانستان کی سیاسی قیادت خود اپنے ملک میں کسی قسم کی ٹھوس تبدیلی کی کوشش کرتی نظر نہیں آ رہی، وہ اپنے ملک کے بگڑتے ہوئے حالات کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرا رہے ہیں جس کی وجہ سے اس خطے میں امن کا قیام فی الحال ممکن نظر نہیں آرہا۔ بھارت آہستہ آہستہ افغانستان میں بنگلہ دیش کی طرح اپنا تسلط قائم کر چکا ہے جس کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے قریب نہ آسکیں اور ''را‘‘ افغان حکومت کے اشارے پر پاکستان میں گڑبڑ کراتی رہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں