اتوارکے روز لاہور میں عمران خان نے ایک بڑے جلسے میں ذوالفقار علی بھٹو کی طرح اپنی تقریر کے آغاز میں یوم مئی کے حوالے سے مزدوروں اور کسانوں کا بڑے دلائل کے ساتھ ذکر کیا ۔ ان کا یہ کہنا بالکل درست تھا کہ پاکستان میں مزدوروں اور کسانوں کو بھلادیا گیا ہے، حالانکہ یہی وہ لوگ ہیں جو صنعت کا پہیہ چلاتے ہیں، دولت پیدا کرکے خوشحالی لاتے ہیں، لیکن وہ خود انتہائی خراب حالات میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ اس وقت پاکستان میںلاکھوں مزدور کارخانے بند ہوجانے کی وجہ سے بے روزگار ہیں ۔ انہیں کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ ہی ان کی دادرسی کرنے والا۔حالانکہ ایک وقت تھا جب مزدوروں اور ان کے نمائندوں کو معاشرے میں بڑی عزت وتکریم سے دیکھا جاتا تھا، نیز ان کے اوقات کار کے علاوہ ان کی تنخواہوں میں اضافے کے لئے جدوجہد بھی کی جاتی تھی، لیکن اب مزدور تنہا رہ گیا ہے، ٹریڈیونین کا ادارہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی ذمہ داری خود ٹریڈ یونین رہنمائوں پر عائد ہوتی ہے، جنہوںنے مالکان سے درپردہ سمجھوتہ کرکے مزدوروں کے حقوق کو نظر انداز کردیا ہے، مزیدبرآں آج سرمایہ دار کنٹریکٹ پر مزدوروں کو ملازمتیں دیتا ہے اور جب چاہے ان کو کسی بہانے سے ملازمتوں سے نکال سکتاہے۔ اس وجہ سے ٹریڈ یونین کا ادارہ بھی شدید متاثر ہوا ہے۔ یہ صورتحال عمومی طورپر سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں اب بھی موجود ہے، سب سے زیادہ بھیانک صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب مسلسل بے روزگاری کی صورت میں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا جس سے اس کے بیوی بچے بھوک سے مرنے لگتے ہیں یا پھر خودکشی کرلیتے ہیں۔ گزشتہ سالوں میں کتنے ہی مزدوروں نے مفلسی اور بے روزگاری کی وجہ سے خودکشی کی ہے اور اپنے ہاتھوں سے بیوی بچوں کو مار بھی دیا ہے۔ پاکستانی سرمایہ داروں کو مزدوروں کی اس صورتحال کو بہتر بنانا یا پھر ان کی مدد کرنے سے کوئی دلچسپی نہیںہے۔ حکومت کے سارے قوانین عملی طورپر سرمایہ داروں کو تحفظ دیتے ہیں جبکہ پاکستان کے آئین 1973ء میںمحنت کشوں کے تحفظ اور ان کو روزگار فراہم کرنے کے سلسلے میں نہایت خوبصورت الفاظ درج ہیں ۔ ماضی میں مزدور مخلص سیاست دانوں کے ساتھ مل کر ناانصافی ، ظلم اور جبری مزدوری کے خلاف تحریکیں چلایا کرتے تھے۔ معروف شاعر اور لکھاری ان کی جدوجہد کی حمایت کرنے میں ان کے ساتھ شامل ہوتے تھے، بسا اوقات طالب علموں کی تنظیمیں بھی ان کی حمایت کرتی تھیں۔ جلسے جلوس نکال کر ان کو اپنے اتحاد کا یقین دلاتی تھیں، لیکن گلوبلائزیشن نے پسماندہ اور نیم ترقی یافتہ ملکوں کی معیشتوں کو یرغمال بنا لیا ہے، جس میں مزدوروں کے لئے باعزت طورپر زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں چھوڑا گیا۔
دوسری طرف کسانوں کا بھی برا حال ہے کسان زمینوں میں اپنے لہو سے فصلیں اگاتے ہیں، جب فصل تیار ہوجاتی ہے تو ان کی پیداوار مڈل مین مارکیٹ ریٹ سے بھی کم قیمت پر خریدتا ہے، ان کی پیدا کردہ اجناس کی قیمتیں جو حکومت مقرر کرتی ہے، اس کی قیمت بھی کوئی دینے کو تیار نہیں ہوتا، چنانچہ کسان کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اس کی پیداوار سستے داموں خرید کر زیادہ منافع کے ساتھ مارکیٹ میں فروخت کردی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج کا کسان صنعتی مزدور کی طرح بہت زیادہ بد حال زندگی بسرکرنے پر مجبور ہے۔ ایک اور مسئلہ جو کسانوں کے لئے تکلیف کا باعث بنتا ہے وہ یہ ہے کہ جب زمیندار ان کو قرضہ دیتا ہے تو یہ قرضہ اس نوعیت کا ہوتا ہے کہ کبھی اترتا ہی نہیں، کسان ان قرضوں کی وجہ سے زمیندار کے ہاتھوں میں قید ہوجاتا ہے تاہم جب کسان کو اس کی فصل کا معقول معاوضہ نہیں ملتا تو ایسی فصلیں اگانے کی طرف راغب ہوتا ہے جن میں اخراجات کم ہوں اور فصل تیار ہوجانے کے بعد بک بھی جائے۔ گزشتہ سال کسانوں نے کپاس کی کاشت کم کی تھی، کیونکہ ان کو مارکیٹ میں اس کا صحیح معاوضہ نہیں مل رہا تھا، چنانچہ کپاس کی کمی کو پورا کرنے کے لئے صنعت کاروں نے بھارت کے علاوہ دیگر ذرائع سے کپاس درآمد کی ہے۔ اسی طرح اس سال چاول کی کاشت بھی کم ہوئی ہے، پاکستانی چاول کی برآمد بھی کم ہوتی جارہی ہے اور ناقص مارکیٹنگ کی وجہ سے پاکستانی چاول کی مانگ میں کمی آرہی ہے، پاکستان کی برآمدات گزشتہ دوسالوں سے گررہی ہے۔ اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ حکومت نے برآمد کنندگان کے اربوں روپے دبا رکھے ہیں جس کے سبب وہ نہ تو موثر اندا زمیں مارکیٹنگ کرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنے کارخانوں میں جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے اپنی پروڈکٹس کی کوالٹی میں بہتری لاسکتے ہیں۔ حکومت کی اس عمومی بے حسی کے سبب پاکستان اپنی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ کرنے سے قاصر نظر آرہا ہے۔
یوم مئی کے حوالے سے عمران خان کی تقریر کا غریب طبقے میں زبردست خیر مقدم ہوا ہے، جیسا کہ میں نے بالائی سطور میں لکھا ہے کہ بھٹو صاحب کے بعد عمران خان نے مدلل اور منطقی انداز میں مزدوروں اور کسانوں کی حالت زار اور حالات پر بات کی ہے۔ اس جلسے میں بیروزگار نوجوان بھی موجود تھے، جن کے سماجی اور معاشی حالات مزدوروں اورکسانوں سے بھی زیادہ بدتر ہو چکے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی 20کروڑ کی آبادی میں نوجوانوں کی تعداد ساٹھ فیصد ہے۔ ان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ، نیم تعلیم یافتہ اور ناخواندہ سب شامل ہیں۔ ان سب کامشترکہ مسئلہ روز گار ہے جو ملک کی کرپٹ بے حس اور ظالم اشرافیہ دینے کو تیار نہیں ہے۔ اب اس ظالم اور استحصالی طبقے کے خلاف مزدور ، کسان اور نوجوان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہورہے ہیں جن کے اتحاد سے موجودہ نظام جلد اپنی موت آپ مرجائے گا اورایک نیا پاکستان وجود میں آئے گا، جس میں سب کی دادرسی ہو گی اور معاشی وسماجی حالات کو بہتر بنانے میں کوئی کسر نہیںاٹھارکھی جائے گی۔ یہ خواب صرف عمران خان اور ان کے ساتھیوں کا نہیں ہے بلکہ ان تمام باشعور محب وطن پاکستانیوں کا ہے جو موجودہ نظام کے تحت ہونے والی کرپشن سے تنگ آچکے ہیں اور تبدیلی کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔