یہ بات خوش آئند ہے کہ جنرل راحیل شریف نے ایم کیو ایم کے ایک کارکن آفتاب احمد کی موت سے متعلق فی الفور تحقیقات کا حکم صادر کیا ہے، اور کہا ہے کہ جو بھی اس ''جرم‘‘ میں ملوث ہے اس کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ ایم کیو ایم کے رہنمائوں نے جنرل راحیل شریف کے اس بیان کے خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ آفتاب احمد کی موت مبینہ طورپر تشدد کی وجہ سے ہوئی ہے اگر یہ الزام درست ثابت ہوتا ہے تو پھر یہ سب کچھ غیر جانبدارانہ تحقیقات کے بعد ہی منظر عام پر آسکے گا، جبکہ ڈی جی رینجرز نے بھی ایک کمیٹی قائم کردی ہے کہ جو آفتاب احمد کی ناگہانی موت سے متعلق تحقیقات کرائے گی ،نیز انہوںنے (ایک خبر کے مطابق) رینجرز کے چند اہل کاروں کو معطل بھی کردیا ہے، جس سے یہ ظاہر ہورہاہے کہ آفتاب احمد پر واقعی رینجرز کے چند نادان اہلکاروں نے تشدد کیا تھا، ایم کیو ایم کے ایک رہنما فاروق ستار نے بھی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے غیر جانب دارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے ، تاہم یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ گزشتہ کئی ماہ سے ایم کیو ایم قانون نافذ کرنے والوں کی نگاہ میں ''معتوب‘‘ بن چکی ہے، ان کے کارکنوں کو ان کے گھروں سے اٹھا کر پوچھ گچھ کی جاتی ہے اور جب مطلوبہ نتائج حاصل نہیںہوتے تو ان پر تشدد بھی کیا جاتا ہے ، حالانکہ پاکستان کے قانون اور آئین کے مطابق
تشدد اور مار پیٹ کے ذریعے بیان حاصل کرنا کسی بھی طرح جائز نہیں ہے لیکن پاکستان میں چونکہ قانون کی عمل داری نہ ہونے کے برابر ہے اس لئے بعض اوقات طاقت اور تشدد کاراستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ آفتاب احمد کی ہلاکت اپنی جگہ انتہائی افسوس ناک بات ہے حالانکہ رینجرز نے سندھ پولیس کے تعاون سے ٹارگٹ کلرز آپریشن کے ذریعے دہشت گردوں کا صفایا کردیا ہے، جس کی بدولت کراچی میں سکون قائم ہوا ہے جبکہ کاروبار حیات کا جاری رہنا رینجرز کی اچھی کارکردگی کو ظاہر کررہا ہے جس کو کراچی کے عوام نے خصوصیت کے ساتھ تاجروں اور صنعت کاروں نے بہت سراہا ہے کیونکہ ٹارگٹڈ آپریشن سے قبل کراچی میں جرائم پیشہ عناصر کا راج تھا ۔ نہ صرف تاجر اور صنعت کار ان دہشت گردوں کا شکار تھے‘ انہیں لُوٹا جارہا تھا بلکہ بھتہ نہ دینے کی صورت میں قتل بھی کردیا جاتا تھا، سٹریٹ کرائم غیر معمولی طورپر بڑھ گئے تھے، یہاں تک کہ گھروں کے سامنے بھی ڈاکو عوام کو لوٹ رہے تھے۔ سندھ کی حکومت اس افسوس ناک صورتحال کے سامنے خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی، بلکہ حکومت کے بعض ارکان لوٹ مار میں شامل تھے،
چنانچہ پاکستان کی فوج نے سیاسی قیادت کو باور کرایا کہ اگر سماج دشمن عناصر کی کراچی میں یہ سرگرمیاں جاری رہیں اور ان کا فوری سد باب نہیں کیا گیاتو کراچی ہاتھ سے نکل جائے گا، جس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ پاکستان معاشی طور پر مفلوج ہوکر رہ جائے گا، کیونکہ ٹیکس کی صورت میں زیادہ تر آمدنی کراچی سے حاصل ہوتی ہے، (تقریباًساٹھ فیصد) جبکہ سب سے زیادہ برآمدات بھی اس شہر سے ہوتی ہیں، کراچی کی بندرگاہ اس خطے کی سب سے زیادہ فعال بندرگاہ ہے، جو پاکستان کی بین الاقوامی تجارت کو فروغ دینے میں معاون ومددگار ثابت ہورہی ہے، چنانچہ کراچی کو ٹھیک کرنے کے لئے دوسال قبل گورنر ہائوس کراچی میں ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کا اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں تاجروں اور صنعت کاروں کے علاوہ صحافیوں کی بھی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی تھی۔ سیاست دانوں اور عوام کے اس نمائندہ اجلاس میں کراچی میں ٹارگٹڈآپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا،جس کے مثبت نتائج بہت جلد نکلنا شروع ہوگئے۔
ٹارگٹڈ آپریشن کو کامیاب بنانے کے لئے رینجرز کو قانون کی روشنی میں خصوصی اختیارات دیئے گئے تھے جو اس وقت بھی انہیں حاصل ہیں، جیسا کہ میں نے بالائی سطور میں لکھا ہے کہ ٹارگٹڈ آپریشن کی وجہ سے کراچی بہتری کی طرف جارہا ہے، معاشی سرگرمیاں جاری ہیں اور خوف کی فضا بہت حد تک تحلیل ہوگئی ہے، یقینا اس کا کریڈیٹ رینجرز اور کراچی پولیس کو جاتا ہے اور جانا بھی چاہئے، لیکن ٹارگٹڈ آپریشن کے ضمن میں بعض حلقوں کی جانب سے یہ الزام لگایا جا رہا تھا کہ ایم کیو ایم کو خاص طورپر اس کا نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ ایم کی ایم ایک سیاسی جماعت ہے‘ اس میں شامل سب خراب یا بد عنوان لوگ نہیں ہیں بلکہ وہ اسمبلیوںمیں بیٹھ کر قانون ساز ی میں پاکستان کی فلاح وبہبود کے سلسلے میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور یہ بھی صحیح ہے کہ ایم کیو ایم کی چھتری تلے بعض جرائم پیشہ عناصر نے پناہ لے رکھی تھی، جس کے سبب ایم کیو ایم بدنام ہورہی تھی۔ اگر
ایم کیو ایم کی قیادت خود اپنے اندر احتساب کا طریقہ کار جاری رکھتی تو یقینا اس میں شامل جرائم پیشہ عناصر پارٹی سے غائب ہو جاتے لیکن نہ معلوم وجوہ کی بنا پر ایم کیو ایم کی قیادت ایسا کرنے سے قاصر رہی ہے۔ مزید برآں ایم کیو ایم کی قیادت نے ریاست سے ٹکرانا شروع کردیا جو انتہائی نا مناسب قدم ہے، سندھ کی حکومت دل سے یہ چاہتی تھی کہ ایم کیوایم کو شہری سندھ میں غیر موثر بنادیا جائے، جس کا اظہار بلدیاتی نظام کو اپنے مکمل کنٹرول میں لینے سے ظاہر ہورہاہے ، تاہم ان حقائق کے باوجود آفتاب احمد کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے۔ ایسے واقعات کراچی شہر کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ماورائے عدالت قتل کسی بھی لحاظ سے قابل قبول نہیں ہے، اس طریقہ کارسے خود قانون کی بے حرمتی اور بے توقیری ہوتی ہے، تو دوسری طرف قانون نافذ کرنے والوں کو بھی اس ضمن میں تلخ وترش باتیں سننے کو ملتی ہیں چنانچہ پاکستان افواج کے سپہ سالار راحیل شریف نے آفتاب احمد کی موت سے متعلق تحقیقات کا حکم دے کر ایم کیو ایم سمیت آفتاب احمدمرحوم کے لواحقین کو حوصلہ وہمت عطا کیا ہے یقینا شفاف تحقیقات کے بعد انصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں گے اور سچ کھل کر سامنے آئے گا۔