تفصیلات قوم کو بتا دیں!

پاناما لیکس کے بعد سے ملک کی صورتحال مسلسل بگڑتی جا رہی ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو بچانے کے لئے ''عوامی جلسے‘‘ کررہے ہیں جن میں وہ عوام کو یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کی تین سالہ حکومت نے ان کے لئے کیا کچھ نہیں کیا ۔ اس کے علاوہ وہ ماضی میں اپنے خاندان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں سے بھی پردہ اٹھارہے ہیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ پاناما لیکس سے قبل یہی حکمران عوام کو گھاس نہیں ڈالتے تھے اور اب روز بروز جلسے منعقد کر رہے ہیں۔ وہ سیدھے سادے عوام کو باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ حزب اختلاف کی جماعتیں خصوصیت کے ساتھ پی ٹی آئی ان کی حکومت کو ختم کرانا چاہتی ہے اور اس کے ساتھ ''جمہوریت‘‘ کو بھی!لیکن ان کے عوامی جلسوں کا عوام پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا ہے، ان کے حواریوں جن کی بڑی تعداد خوشامدیوں پر مشتمل ہے ، وہ انہیں مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ حزبِ اختلاف کے مطالبے پر کان نہ دھریں۔ مزیدبرآں حزبِ اختلاف کی جانب سے جو ٹی او آرز پیش کئے گئے ان کو قبول نہ کریں، اور نہ ہی ان کی بنیاد پر کوئی کمیشن قائم کریں؛ چنانچہ وزیراعظم نے اپنے حواریوں کی نصیحت مان کر حزب اختلاف کے کئی اہم مطالبات مسترد کر دئیے ہیں، جس کی وجہ سے ملک میں بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ اس صورتحال نے سارے معاشرے کی فکری وذہنی صلاحیتوں کو مفلوج کر کے رکھ دیاہے، ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ میاں نواز شریف ایک طاقتور ادارے سے ٹکر لینے کی کوشش کر رہے ہیں جیسا کہ ان کا ماضی میں طرئہ امتیاز رہا ہے،حالانکہ اس ملک اور اس کے عوام نے ہی انہیں بام عروج پر پہنچایا ہے، لیکن وہ احسان کو بھول کر اپنے ناداں حواریوں کے مشوروں پر چل رہے ہیں۔ اس میں میڈیا کے چند عناصر بھی شامل ہیں جن کو حکمران ہمیشہ نوازتے رہتے ہیں۔ دراصل میڈیاکو کرپٹ کرنے میں حکمران جماعت کا کلیدی رول رہا ہے، چنانچہ ملک کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر‘خصوصیت کے ساتھ ملک کو سب سے زیادہ خطرہ اندرونی دشمنوں سے ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم میاں نواز شریف سے ملاقات کرکے انہیں مشورہ دیا ہے کہ پاناما لیکس سے پیدا ہونے والی صورتحال کو ٹھیک کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ وزیراعظم حزب اختلاف کے ساتھ مل کر سپریم کورٹ کی سربراہی میں ایک ایسا کمیشن تشکیل دینے کی کوشش کریں جس کی مدد سے ملک کے موجودہ حالات میں معنوی تبدیلیاں پیدا ہو سکیں۔ یہ دراصل عوام کا پیغام ہے جو مفاد پرست اور موقع پرست اشرافیہ کی بے لگام کرپشن کی وجہ سے نہ صرف سخت مضطرب اور پریشان ہیں بلکہ انتہائی نالاں ہیں۔یہ سیاستدان ''جمہوریت‘‘ کے بلند بانگ نعروں سے افلاس زدہ عوام کو بہکانے اور پھسلانے میں کامیاب ہونے کے بعد جب مسند ِاقتدار پر فائز ہوتے ہیں، تو انہیں نہ تو جمہوریت کا خیال رہتا ہے اور نہ ہی آئین کا پاس ہوتا ہے،وہ عوام بھی انہیں بھول جاتے ہیں جن سے وعدے کر کے وہ اقتدار میں آتے ہیں۔ انہیں اقتدار کی چمک تلے صرف اپنی اور اپنے خاندان کی بہبود نظر آتی ہے۔ وہ اپنی دولت اور ثروت کو بڑھانے اور ملک کے خزانوں اوربیت المال کو لوٹنے میں بھی کسی قسم کی اخلاقی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ نہ ہی ان کا ضمیر انہیں ملامت کرتا ہے۔ ہر وہ طریقہ جس سے ناجائز دولت میں اضافہ ہوسکے اور اثاثے بڑھ سکیں‘ وہ اس پر سرعت کے ساتھ عمل پیرا ہوجاتے ہیں۔ نیز جب سیاسی قیادت کی جانب سے لُوٹ مار اور بری طرز حکمرانی کا مظاہرہ ہوتا ہے، تو ملک کے تمام اداروں کی فعالیت شدید متاثر ہوتی ہے۔ اس کا فائدہ اٹھا کر ملک دشمن عناصر ملک کو مزید کمزور کرنے اور اس میں گڑ بڑ پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جیسا کہ اس وقت نظر بھی آ رہا ہے۔ مثال کراچی کی دی جاسکتی ہے جہاں ایک بار پھر ''را‘‘ کے ایجنٹ اور ٹارگٹڈ کلرز متحرک ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
اس لئے میاں صاحب کو ملکی حالات کی بہتری اور اصلاح احوال کے سلسلے میں پس و پیش کا مظاہرہ نہیںکرنا چاہئے۔ پاناما لیکس کے ذریعہ میاں نواز شریف اور ان کے بیٹوں بیٹی سمیت کے ساتھ ساتھ جن سینکڑوں پاکستانیوں کے ناجائز دولت کو آف شور کمپنیوں میں منتقل کرنے کے سلسلے میں نام آئے ہیں، یہ سارا کام سینکڑوں عالمی شہرت یافتہ صحافیوں کا ہے جنہوں نے بڑی سخت محنت اور ریاضت کے بعد اس چھپی ہوئی ناجائز دولت کا سراغ لگا یا ہے۔ اس ضمن میں برطانیہ کے ایک وکیل نے اخباری بیان میں کہا ہے کہ آف شور کمپنیوں میں جمع ہونے والی دولت یا پھر اس کے ذریعہ عالمی سطح پر کی جانے والی تجارت دراصل وہ ناجائز پیسہ ہے، جو رشوت ، ڈرگز ، تجارت ،کک بیکس اوراوور انوائسنگ اور انڈر انوائسنگ کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔ اسی لئے ٹیکس دینے سے اجتناب برتاجاتا ہے جس کی وجہ سے نہ تو عوام کے معاشی وسماجی مسائل حل ہوپاتے ہیں نہ ہی معیشت ترقی کرتی ہے بلکہ ملک کی مجموعی ترقی پابندسلاسل ہوجاتی ہے۔ افسوس کے ساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ اس ملک کے ساتھ سیاست دانوں نے لوٹ مار کا طرز عمل اختیار کرکے ملک کو کمزور ترین سطح پر لا کھڑا کیا ہے۔ اگر عوام یا پھر حزب اختلاف میاں نواز شریف سے ان کے اثاثوں کے بارے میں سوال کررہے ہیں اور ان سے استدعا کر رہے ہیںکہ وہ پارلیمنٹ میں آکر ان کا حساب دیں تو وہ کیوں کترارہے ہیں؟ اگران کے ہاتھ صاف ہیں اور اگر وہ سیاست کے ذریعہ پاکستان کے وسائل کو اپنے لئے اور اپنے خاندان کے تصرف میں نہیں لائے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کے منتخب نمائندوں کے سامنے وضاحت پیش کریں، کیونکہ میاں صاحب کہا کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے چنانچہ اب اس سپریم ادارے کو مزید نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
چنانچہ میں دوبارہ یہ لکھ رہا ہوں کہ گیند میاں نواز شریف کے کورٹ میں ہے۔ وہ پانامالیکس سے پیدا ہونے والی صورتحال کو اپنے حواریوں کے ذریعہ غلط، بے بنیاد اور مہمل بیانات دلوا کر صورتحال کو مزید پیچیدہ بنارہے ہیں۔ مزیدبرآں ان کا یہ خیال درست نہیں ہے کہ چند دنوں بعد حالات خود بخود ٹھیک ہوجایں گے، اور لوگ پانامالیکس کو ''بھول‘‘ کر اپنی روز مرہ کی مصروفیات میں مشغول ہوجائیں گے۔ اب ایسا ممکن نہیں ہوسکے گا، ملک کی دولت کو لوٹنے والوں کو جواب دینا ہی پڑے گا، ورنہ بہت ممکن ہے کہ ناجائز دولت کو بچاتے بچاتے خود ان کا اقتدار ختم ہوجائے۔ اس صورت میں انہیں ''شہادت‘‘ کا درجہ نہیںمل سکے گا، جس کی ان کے ناداں دوست امید کر رہے ہیں۔ گیند نواز شریف کے کورٹ میں ہے۔ وہ اگر اپنے بچوں کے اثاثوں اور آف شور کمپنیوں کے حوالے سے قوم کو تمام تفصیلات کھل کر بتا دیں تو اس میں ان کی بھی بچت ہے اور ملکی حالات بھی بہتری کی جانب واپس آ سکتے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں