بارہ سو روپے اور مزدوروں کی جانیں

تین روز قبل کراچی میں ایک کیمیکل فیکٹری کے ٹینک کی صفائی کرتے ہوئے پانچ مزدور اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مرنے والوں میں دو سگے بھائی بھی تھے۔ فیکٹری کو سیل کر کے مالکان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ ان مزدوروں کا فیکٹری مالکان سے 12سو روپے میں ٹینک صاف کرنے کا معاہدہ ہوا تھا۔ جاں بحق ہونے والے ایک مزدور شکیل کی بیوی نے روتے ہوئے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ میں اپنے شوہرکو چھٹی والے دن کام پر جانے سے روک رہی تھی، لیکن اس نے کہا کہ کام زیادہ نہیں ہے صرف ٹینک کی صفائی کرنی ہے، مجھے اور دوسرے مزدوروں کو 12سو روپے ملیںگے۔ چنانچہ وہ چلا گیا اور اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔ سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے اس سانحے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے وزیر محنت کو ہدایت کی ہے کہ اس واقعے سے متعلق انہیں فوراً رپورٹ پیش کی جائے۔ نجانے رپورٹ میں کیا کچھ لکھا جائے گا، لیکن یہ بات طے ہے اور یہی معمول ہے کہ سندھ کی کرپٹ صوبائی حکومت کے اہل کار فیکٹری مالکان کو بچانے کی کوشش کریں گے، بلکہ اس سنگین معاملے کو Hush-up کرنے کی کوشش کریںگے۔
کورنگی کے صنعتی علاقے میں جہاں یہ واقعہ پیش آیا وہاں کی بیشتر فیکٹریوں میں کسی قسم کے حفاظتی انتظامات موجود نہیں ہیں، یہاں تک کہ بعض کارخانوں میں آگ بھجانے کے آلات بھی نایاب ہیں۔ فرسٹ ایڈ کا سامان شاید ہی کسی کارخانے میں نظر آتا ہو۔ اگرچہ کارخانوں میں مزدوروں کے لئے بنیادی سہولتوں سے متعلق قوانین موجود ہیں، لیکن بد عنوان سرکاری اہل کار رشوت لے کر کارخانوں کو ہر قسم کی کلیئرنس دے دیتے ہیں۔ اتوار کے روز جس فیکٹری میں المناک واقعہ ہوا، وہاں اسی قسم کی صورت حال ہے۔ فیکٹری مالکان کو چاہئے تھا کہ قوانین و ضوابط کے مطابق پہلے وہ کسی ماہر انجینئر کے ذریعہ ٹینک سے زہریلی گیس کا اخراج کراتے، اس کے بعد ان مزدوروں کی مدد سے ٹینک صاف کرایا جاتا، لیکن اس قسم کی کوئی حکمت عملی اختیار نہیں کی گئی اور مزدوروں کا خون ناحق رزق خاک ہوا !
جیسا کہ میں نے اس سے قبل کسی کالم میں لکھا ہے اور ڈاکٹر لال خان بھی مسلسل لکھتے رہتے ہیں کہ ہمارے ہاں مزدوروں کے حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے، انہیں ان بنیادی حقوق تک سے محروم رکھا جا رہا ہے جن کی پاکستان کے آئین میں تحفظ کی ذمہ داری ریاست کا اولین فریضہ ہے۔ لیکن عمل تو کجا ان کا ذکر بھی نہیں کیا جاتا۔ دوسرا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ عالمی فورمز پر پاکستان کے سرکاری اہل کار ملک میں مزدوروں کے حقوق اور ان کو جائز سہولتیں فراہم کرنے کے بارے میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے نہیں تھکتے، لیکن زمینی حقائق اس کے یکسر بر عکس ہیں۔ پاکستان میں مزدوروں اور ان کی تنظیموںکو خاص حکمت عملی کے تحت منتشر کردیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مزدوروں کے حق میں کوئی موثر آواز اٹھانے والا نہیں، کارخانوں کے مالکان بآسانی کسی مزدور کو نکال سکتے ہیں، اگر لیبرکورٹ میں فیکٹری مالکان کے خلاف مقدمہ دائر کیا جاتا ہے تو اس کا فیصلہ ہونے میں کئی سال لگ جاتے ہیں اور جب فیصلہ آتا ہے تو اکثر مزدور اس دنیا سے کوچ کر گیا ہوتا ہے۔ چنانچہ پاکستان میں مزدوروں کا بھیانک استحصال اسی طرح جاری رہتا ہے جیسے انگلستان میں صنعتی دور کے آغاز کے دور میں ہوتا تھا۔
وفاق اور سندھ حکومت کی جانب سے مزدوروں کی اجرت سے متعلق جو قوانین منظور ہوئے تھے، ان پر فیکٹری مالکان عمل نہیں کرتے۔ مزدوروں کی تنخواہیں بہت کم ہیں جبکہ مہنگائی کے اس دور میں اتنی کم اجرتوں پر ان کا گزارا کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ مزدوروں کے علاج معالجے کے لئے جو ہسپتال موجود ہیں، ان میں انہیں معمولی نوعیت کی دوائیں ملتی ہیں، اگر کوئی بڑی بیماری لاحق ہوجائے تو اس کا علاج ان ہسپتالوں میں نہیں ہوتا کیونکہ ان میں جدید سہولتیں فراہم نہیں کی گئیں۔کتنے دکھ، افسوس اور شرمندگی کی بات ہے کہ جو مزدور فیکٹری مالکان کے لئے دولت پیدا کر رہا ہے، وہی معاشرے میں زندہ رہنے کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ 
اتوار کے روز کراچی میں مزدوروں کے ساتھ جو المناک واقعہ پیش آیا، اس طرح کی واقعات ملک کے دوسرے شہروں میں بھی رونما ہوتے رہتے ہیں، لیکن حکومت وقت نے ان کی روک تھام کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔کارخانوں میں کارکنوں کی حفاظت کے لئے ضروری آلات نصب نہیں کرائے گئے۔اگر یہ آلات اور دیگر سہولتیں موجود ہوں تو حادثات کی صورت میں کم از کم نقصان ہوتا ہے۔ پانچ مزدور 12سو روپے کی خاطر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ فیکٹری مالکان کو تاحال گرفتار کرنے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ خدشہ ہے کہ اس المناک حادثے کے بارے میں جو رپورٹ وزیر اعلیٰ کو پیش کی جائے گی اس کا جھکائو بھی فیکٹری مالکان کی جانب ہوگا۔ مزدوروں کے لواحقین زندگی بھر اپنے پیاروں کو یاد کرکے روتے رہیں گے۔ کمانے والے تو چلے گئے، جو زندہ رہ گئے وہ افلاس اور تنگ دستی کی اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہوںگے۔
پاکستان میں تیسری دنیا کے دیگر ترقی پذیر یا نیم ترقی پذیر ممالک کی طرح مزدوروں کی حیثیت کارخانے میں لگے ہوئے مشین کے پرزوں کی مانند ہوتی ہے، جو ناکارہ ہو جاتا ہے اس کو نکال کر پھنک دیا جاتاہے۔ اسی طرح کے عدم مساوات اور بے رحمی پر مبنی معاشروں میں انقلابات آجایا کرتے ہیں۔ تاریخ میں کئی انقلاب لانے میں مزدوروں کی باشعور قیادتوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے نہ صرف اپنی جانوں بلکہ اپنے بچوں کی بھی قربانیاں دیں ۔ کارل مارکس سے لے کر لینن اور مائوزے تنگ نے مزدوروں کو متحد کرنے کے لئے فکری اور عملی رہنمائی کی۔ ان رہنمائوں نے ذاتی طور پر بھی عوام کی زندگیوں میں معاشی اور سماجی بہتری لانے کے لئے بیش بہا قربانیاں دیں۔ مزدور رہنمائوں نے ظلم کے خلاف احتجاج کیا، پس دیوار زنداں زندگی گزاری لیکن محروم طبقے کے حقوق سے دستبردار ہوئے نہ کوئی سمجھوتہ کیا۔ کارل مارکس کی زندگی کا ایک رخ دیکھیے، اس کی پیاری بیٹی آٹھ سال کی عمر میں جب مر گئی تو اس کے دفن کے لئے اس عظیم فلسفی کے پاس پیسے نہیں تھے۔ اس کی بیوی نے بڑے مالداروں کے گھروں کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن کہیں سے مدد نہ ملی۔ پھر کسی رحم دل آدمی نے ان کی بیٹی کے لئے ایک بکس دیا جس میں اس کو دفن کرکے دھرتی ماں کے سپرد کردیا گیا۔ لیکن کارل مارکس لکھتا رہا اور بے رحم سرمایہ داری کے خلاف اپنے خیالات سے دستبردار نہیں ہوا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں