گزشتہ دنوں ایران کے صدر محترم حسن روحانی نے ساری دنیا سے آئے ہوئے اپنے سفیروں سے ملاقات کے دوران بڑی وضاحت سے کہا کہ ایران اپنے ہمسائے ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنا چاہتا ہے۔ انہوں نے پاکستان کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ یہ تعلقات مذہبی اور تاریخی روایات کے ساتھ مستحکم ہونے کے علاوہ آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے اس سے قبل اسی قسم کے خیالات کا اظہار پاکستان میں اپنی ملاقاتوں میں وزیر اعظم نواز شریف اور اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بھی کیا تھا۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کے ایجنٹ بھوشن کے چاہ بہار میں قیام اور اس کی گرفتاری سے متعلق انہوں نے پاکستان کے ارباب حل و عقد کو یقین دلایا تھا کہ اس ضمن میں تحقیقات کی جائے گی بلکہ بعض اطلاعات کے مطابق تحقیقات شروع ہو چکی ہیں، لیکن یہ بات ناقابل فہم ہے کہ ایران کی خفیہ ایجنسیوں کو بھوشن کی سرگرمیوں کا پتہ نہ ہو‘ اور اگر پتہ تھا تو اس کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیا گیا؟ ہو سکتا ہے کہ ایران کی اعلیٰ قیادت کو اس بھارتی ایجنٹ کی سرگرمیوں کا پتہ نہ ہو‘ تاہم پاکستان کو یقین ہے کہ ایران اس ضمن میں بھوشن کی پاکستان کے خلاف سرگرمیوں کی تحقیقات کرکے پاکستان کی قیادت کو اعتماد میں لینے کی کوشش کرے گا۔ ایرانی صدر حسن روحانی کی یہ بات درست ہے کہ ایران اور پاکستان کے درمیان تاریخی، مذہبی اور ثقافتی رشتے ایک عرصہ دراز سے قائم ہیں‘ فارسی زبان چھ سو سال تک برصغیر کی عدالتوں کی زبان تھی‘ نیز بابر کے بیٹے ہمایوں کو دوبارہ تخت پر بٹھانا ایرانی حکومت اور ان کے فوجیوں کا کارنامہ تھا۔
علاوہ ازیں قیام پاکستان کے فوراً بعد ایران نے پاکستان کو ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے تسلیم کیا تھا۔ سابق شہنشاہ ایران پہلے سربراہ تھے‘ جنہوںنے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس کے بعد یہ تعلقات بڑھتے چلے گئے، مستحکم ہوتے چلے گئے۔ آر سی ڈی کے ذریعے ایران، پاکستان اور ترکی ایک دوسرے کے قریب آ گئے اور یوں تینوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی ایک نئی جہت کا آغاز ہوا تھا۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن بھی ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی ایک اہم کڑی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ابھی تک توانائی کا یہ عظیم منصوبہ شروع نہیں ہو سکا، مطلب یہ کہ پاکستان کی جانب سے شروع نہیں ہو سکا‘ ایران اپنا کام مکمل کر چکا ہے۔ اس منصوبے کے شروع نہ ہونے کی ایک وجہ پاکستان کو درپیش مالی مسائل ہیں۔
دوسری طرف ایران کے بھارت کے ساتھ اچھے مراسم قائم ہیں بلکہ کئی بار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارت ایران کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ چاہ بہار پورٹ کا منصوبہ اگرچہ ایران کی اقتصادیات کو بہتر بنانے سے منسلک ہے‘ لیکن جس طرح بھارت اس منصوبے پر بے دریغ روپیہ خرچ کرنے کا عندیہ دے رہا ہے‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت اس خطے میں گوادر کی اہمیت کو کم کرنے‘ اور اس طرح سی پیک کے عظیم منصوبے کو ناکام بنانا چاہتا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، بلکہ ایک مستند اطلاع کے مطابق بھارت نے 60 کروڑ ڈالر صرف اس مقصد کے لئے مختص کئے ہیں کہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سی پیک کو ناکام بنانے کی کوشش کی جائے۔ چاہ بہار پورٹ کو بھارت کے تعاون سے ترقی دینے کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ گوادر پورٹ کی معاشی اور تجارتی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی جائے اور بھارت کے ایجنٹوں کو پاکستان کے خلاف کام کرنے کا بھرپور موقع دستیاب ہو سکے، لیکن ایرانی صدر محترم حسن روحانی نے پاکستان میں اپنے قیام کے دوران یہ کہا تھا کہ چاہ بہار پورٹ اور گوادر پورٹ ایک دوسرے کے لئے Complimentry ثابت ہوں گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چاہ بہار گوادر کے مقابلے میں چھوٹا فری پورٹ ہے‘ جہاں کچھ عرصہ قبل معاشی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں۔ ہمیں محترم حسن روحانی کی بات پر یقین ہے کہ وہ جہاں چہاہ بہار پورٹ کے ذریعے اپنے مفادات کا خیال و پاس رکھ رہے ہیں‘ وہیں وہ پاکستان‘ خصوصیت کے ساتھ گوادر اور بلوچستان کا بھی خیال رکھیں گے اور بھارت کو اپنے علاقے سے کوئی ایسی کارروائی کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، جس کی وجہ سے سی پیک کا منصوبہ کسی بھی طرح متاثر ہو یا پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو جائے۔
بہرحال ایران کو یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ عالمی سطح پر بھارت نے ایران کو ہمیشہ دھوکہ دیا ہے‘ مثلاً ایران کے ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن کے تحت ہونے والے ایک اجلاس میں
بھارت نے ایران کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ اسی طرح بھارت نے ایران پاکستان بھارت گیس پائپ لائن منصوبے سے امریکہ کے دبائو کی وجہ سے علیحدگی اختیار کرلی تھی؛ چنانچہ ایران کی حکومت اور ان کے محترم صدر کو یہ سوچنا چاہئے کہ بھارت اس کا قابل اعتماد دوست نہیں ہے، ہر عالمی فورم پر بھارت نے ایران کا ضرورت کے وقت ساتھ چھوڑا ہے جبکہ اس نے اس دوستی کے نام پر ایران کی سرحدوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی ہے، جس کی تازہ مثال بھوشن کی دی جا سکتی ہے‘ جسے پاکستانی حکام نے چند ہفتے قبل گرفتار کیا تھا۔ نامعلوم کتنے ''را‘‘ کے ایجنٹ اس وقت بھی پاکستان کے خلاف مذموم کارروائیاں کر رہے ہیں۔ پاکستان ایران کے ساتھ کسی بھی صورت میں اپنے تعلقات بگاڑنا نہیں چاہتا۔ دونوں کے درمیان مذہب، تاریخ اور ثقافت کا مضبوط رشتہ قائم ہے جو انشاء اللہ آئندہ بھی نہ صرف قائم رہے گا‘ بلکہ مزید مستحکم ہو گا، پاکستان کو یقین ہے کہ ایران سے اقتصادی پابندیاں اٹھ جانے کے بعد ایران کے ساتھ تجارتی اور معاشی سرگرمیوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو گا، بلکہ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ سی پیک سے ایران بھی معاشی طور پر مستفید ہو سکے گا، پاکستان ہر طرح سے ایران کی معیشت کو بحال کرنے میں ہمہ وقت تیار ہے جیسا کہ ماضی میں اس کی روشن مثالیں موجود ہیں۔