پاکستان، افغانستان کی مددکرنا چاہتا ہے!

پاکستان، افغانستان، چین اور امریکہ کے ساتھ طالبان دوبارہ امن مذاکرات شروع نہیں ہو سکے۔ پاکستان کی جانب سے تمامترکوششوں کے باوجود افغانستان کا رویہ مفاہمت پر مبنی نہیں ہے، بلکہ وہ بھارت کا اس حد تک حاشیہ بردار ہوگیا ہے کہ اس نے دہشت گردوں کو ایک بار پھر پاکستان کے اندر بھیج کر تخریبی کارروائیاں کرنے کا اہتمام کیا ہوا ہے۔ حال ہی میں بلوچستان میں جو چھ افغانی ''را‘‘ کے ایجنٹ پکڑے گئے ہیں ان کے انکشافات سے پاکستان کی حکومت اور انٹیلی جنس اداروں کو اب یہ کامل یقین ہو چکا ہے کہ افغانستان اس خطے میں امن کا خواہاں نہیں ہے بلکہ وہ بھارت کے ساتھ ملی بھگت کے ذریعے پاکستان کے اندر بد امنی پھیلانے پر تلا ہوا ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر پاکستان کی جانب سے امن کے قیام کے تمامترکوششیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتیں۔ امریکہ ماضی کی طرح پاکستان پر دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے اپنا تمامتر اثر و رسوخ استعمال کرے، نیز وہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف بھی قدم اٹھائے۔ امریکہ کی جانب سے اس طرح کے احکامات کوئی نئی بات نہیں، ماضی قریب میں بھی اس کی طرف سے ڈو مور کا نعرہ پاکستان کی حکومت اور عوام سنتے سنتے تھک چکے ہیں اور اب حقانی نیٹ ورک کے بارے میں اسی قسم کے احکامات صادر کئے جارہے ہیں؛ تاہم امریکہ اور افغانستان کی جانب سے پاکستان کے خلاف کئے جانے والے نامناسب اور غیر منطقی اور نفرت پر مبنی اقدامات کے باوجود پاکستان، افغانستان کے عوام کی بھلائی کا خواہش مند ہے، اس نے عملی طور پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ مصیبت کے وقت، بالخصوص سوویت یونین کی جانب سے جب افغانستان میں مداخلت کی گئی تو افغان عوام کا ایک جم غفیر پاکستان میں وارد ہوا۔ تقریباً تیس لاکھ افغان مہاجرین نے پاکستان کی معیشت کا حشر نشر کردیا، لیکن اس کے باوجود پاکستان کی حکومت اور عوام نے ان کی مہمان نوازی اور مدد کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ پنا ہ گزین افغانیوں کو پاکستان کے پبلک سیکٹر ہسپتالوں میں علاج معالجے کی تمام سہولتیں حاصل ہیں، ان کے بچے سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان نے کابل یونیورسٹی میں علامہ اقبال فیکلٹی بھی قائم کی ہے جس سے افغانستان میں فارسی بولنے اور سمجھنے والے طلبہ اور طالبات علامہ اقبال کے خیالات سے خاطر خواہ استفادہ کرسکیں گے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے ننگر ہار میں سرسید پوسٹ گریجوایٹ فیکلٹی آف سائنز قائم کی ہے، بلخ میں لیاقت علی خان انجینئرنگ یونیورسٹی کا قیام افغانستان میں تعلیم کے فروغ کے سلسلے میں ایک اہم قدم ہے، مزید برآن کابل میں رحمن بابا اسکول اور رحمن بابا ہاسٹل کی تعمیر بھی اس میں شامل ہے۔ شاید پاکستانیوں کو یہ معلوم نہیں کہ پاکستان وہ واحد مسلمان ملک ہے جس نے سب سے زیادہ افغانستان کی مالی، ثقافتی اور سماجی سطح پر مدد کی ہے، بلکہ اس وقت بھی کررہا ہے جبکہ افغانستان، پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کر رہاہے۔ اب تک پاکستان نے افغانستان کے مختلف شعبوں میں ترقیاتی کاموں کی مد میں 385 ملین ڈالر خرچ کئے ہیں۔ اس کے علاوہ موجودہ حکومت نے حال ہی میں افغانستان حکومت کی 500 ملین ڈالر سے مدد کی ہے؛ حالانکہ پاکستان کی معیشت خود زیادہ ترقی یافتہ نہیں ہے، نیز پاکستان اندرونی اور بیرونی دہشت گردوں کے خلاف جاری جنگ میں 100بلین ڈالر سے زائد خرچ کرچکا ہے۔ حال ہی میں پاکستان نے 75 کلومیٹر لمبی طورخم جلال آباد سٹرک تعمیر کی ہے جس سے آمدروفت میں غیر معمولی سہولت پیدا ہو گئی ہے۔ پشاوراور کابل کے درمیان ڈیجیٹل ریڈیو نیٹ ورک کی تنصیب بھی پاکستان کی طرف سے افغانستان کے عوام میں مثبت معلومات کی فراہمی کی طرف ایک اہم پیش رفت ہے۔ 
دراصل پاکستان نے ماضی میں افغانستان کے عوام کی بھلائی کے لئے جو کام کیے اور اب بھی کر رہا ہے ان کو پس پشت ڈالنے میں بھارت کا پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا ہے۔ اس پروپیگنڈے میں پاکستان میں مغربی مالی امداد کے علاوہ خفیہ طور پر بھارت کی مدد سے چلنے والی این جی اوز بھی شامل ہیں جن کا صرف ایک ہی کام ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کی طرف سے افغانستان کے عوام کے لئے فلاح و بہبود پر مبنی کاموں کی نفی کی جائے جبکہ دوسری جانب بھارت کی افغانستان کے ساتھ دوستی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لئے وہ تمام حربے استعمال کئے جائیں جن کی وجہ سے پاکستان کی افغانستان کے ساتھ دوستی متاثر ہوسکے۔ میرا خیال ہے کہ بہت جلد ایسی تمام ملک دشمن این جی اوز کا کام تمام ہونے والا ہے، اس لیے کہ ان کے مذموم کاموں کی وجہ سے پاکستان کا امیج عالمی سطح پر متاثر ہو رہا ہے۔ ان کی اکثریت بد دیانت اور ضمیر فروش ہے۔
دراصل چین سمیت اس خطے کے تمام ممالک اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ بھارت کی خارجہ پالیسی کا محور پاکستان کو نہ صرف تنہا کرنا ہے بلکہ اسے عدم استحکام سے دوچار کرنا بھی اس کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ اس خطے میں صرف بھارت ہی وہ واحد ملک ہے جو مسلمان ممالک کی وقت پڑنے پر مدد کرسکتا ہے؛ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بھارت کے عوام کی اپنی سماجی ومعاشی حالت اتنی دگرگوں ہے کہ انہیں دیکھ کرافسوس ہوتا ہے۔ پچاس کروڑ بھارتی عوام کو صرف ایک وقت کا کھانا نصیب ہوتا ہے جبکہ بھارت دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو اپنے عوام کی حالت زار ٹھیک کرنے کی بجائے ساری دنیا سے مہلک ہتھیار خرید رہا ہے، جس پر وہ کثیر رقم خرچ کر رہا ہے اور اب تو وہ امریکہ کی مدد سے نیوکلیئر سپلائرزگروپ میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ دیگر ممالک بھارت کی اس ادارے میں شمولیت کی حمایت کریں گے۔ چین نے پہلے ہی اس کی شدید مخالفت کی ہے۔ اب ساری دنیا آہستہ آہستہ یہ بھی محسوس کر رہی ہے کہ افغانستان کا پاکستان کی جانب رویہ دوستی یا مفاہمت پر مبنی نہیں، وہ بھارت نوازی میں پاکستان کے خلاف وہی اقدامات کر رہا ہے جن کی ایک دشمن ملک سے توقع کی جاسکتی ہے۔ کیا اس طرح اس خطے میں امن قائم ہوسکتا ہے؟ افغان حکمرانوں کو سوچنا چاہئے کہ اگر وہ اپنے ملک میں امن کے قیام کا خواہاں ہیں تو انہیں پاکستان کے خلاف اپنا رویہ ترک کرنا ہوگا ورنہ افغانستان میں بڑھتی ہوئی خانہ جنگی کو کون روک سکتا ہے؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں