جنوبی ایشیا میں سامراجی پالیسیوں کا حمایتی

آج کے دور میں اگر آنجہانی پنڈت نہرو اور اندرا گاندھی زندہ ہوتے تو وہ مودی کی پالیسیوں کا مشاہدہ کرکے دریا جمنا میں خود کشی کر لیتے۔ بھارت کے ان دونوں رہنمائوں نے بھارت کی خارجہ پالیسی کی اساس غیر جانب داریت اور سیکولرازم پر رکھی تھی۔ جب تک پنڈت جی زندہ رہے وہ دل وجان سے اسی پالیسی پر گامزن رہے؛ تاہم ان کا کبھی کبھار جھکائو سوویت یونین کی طرف ہوتا تھا، جس کے ساتھ ان کے رشتے ناتے وقت گزرنے کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے گئے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انہوںنے غیر جانب داریت کا بھرم بھی قائم رکھا اور پنڈت جی کے مرنے کے بعد بھی ان کے جانشین اسی پالیسی پر قائم رہے۔ لیکن اب بھارت میں صورت حال مختلف ہوگئی ہے۔ نریندرمودی نے امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات مستحکم بنانے کے لئے یو ٹرن لیا ہے۔ غیر جانب داری کی پالیسیوں کو ترک کردیا ہے اورامریکہ کے ساتھ مل کر وہ نہ صرف جنوبی ایشیا میں بلکہ پورے خطے میں اپنا تسلط جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔ نریندر مودی سمجھتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ دوستی کی بدولت نہ صرف بھارت کی فوجی و معاشی طاقت میں اضافہ ہوسکتا ہے بلکہ وہ بیک وقت چین اور پاکستان کے لئے امن اور ترقی کے حوالے سے بے پناہ مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ اس کی چین اور پاکستان کے خلاف یہ سوچ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اب بھارت امریکہ کا ایسا اتحادی بن گیا ہے جس کی تمام تر پالیسیاں امریکہ کی مرہون منت ہوںگی۔ دوسری جانب امریکہ بھارت کی فوجی ضروریات پوری کرنے کے لئے اسلحے کا ڈھیر لگا دے گا اور اس کی اسلحہ ساز فیکٹریاں دن رات کام کرتی رہیں گی۔ امریکہ کی طرف سے بھارت کو دفاعی ٹیکنالوجی بھی منتقل کرے گا جس کے سبب جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بگڑے گا۔ 
امریکہ کے ساتھ بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات خود بھارت کے دانشوروں اور سوچ سمجھ رکھنے والے صحافیوں کو پسند نہیں ہیں۔ بھارت کے ترقی پسند افراد جس میں کمیونسٹ پارٹیوں کے ارکان بھی شامل ہیں، نریندرمودی کی امریکہ نواز سامراجی پالیسیوں کی شدید مخالفت کر رہے ہیں۔ انہیں ادراک ہے کہ امریکہ بھارت کے ذریعے چین کوContain کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کا نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ جنوب مشرقی ایشیا میں بڑھتا ہوا اثر ورسوخ کم ہوسکے۔ امریکہ کی اس وقت پاکستان کے سلسلے میں پالیسیاں ہر چند کہ ''مفاہمت‘‘ پر مبنی ہیں؛ تاہم وہ پاکستان کو نصیحت کر رہا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرے اورافغانستان میں امن قائم کرنے کے لئے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش بھی جاری رکھے۔ اس سلسلے میں امریکہ کے چار رکنی وفد نے حال ہی میں پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت سے ملاقات کرکے امریکہ کی سوچ سے آگاہ کیا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کیونکر اورکن بنیادوں پر بھارت کے ساتھ دوستی کرسکتا ہے؟ بھارت کی قیادت کھلم کھلا پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات عائد کر رہی ہے۔ اس کے کرائے کے ایجنٹ افغانستان کے ذریعے پاکستان میں داخل ہوکر دہشت گردانہ کارروائیاں کرکے فرار ہوجاتے ہیں۔ 'را‘ کا ایجنٹ کُل بھوشن یادیو بھی اسی قسم کی کارروائیوں میں ملوث تھا، لیکن امریکہ نے اس کی مذمت نہیںکی۔ چاہ بہار بندرگاہ کا پراجیکٹ بھی بھارت کی پاکستان اور چین کے خلاف ایک کھلی سازش ہے۔ ایک موقر اخبار Global Times نے اس ضمن میں لکھا ہے کہ چاہ بہارکا ایران اور بھارت کا مشترکہ منصوبہ سی پیک کو ناکام بنانے کی کوشش ہے۔ ان سازشوں کے باوجود چین اور پاکستان کی قیادت سی پیک کو ہر قیمت پر مکمل کرنے اور اس کو فعال بنانے کا عزم رکھتی ہے۔ خود امریکہ بہادر بھی نہیں چاہتا کہ سی پیک کا منصوبہ کامیاب ہو جائے کیونکہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد (انشاء اللہ) پاکستان سمیت پورے خطے کو معاشی فوائد حاصل ہوںگے جبکہ سنٹرل ایشیا کی ریاستوں کو اس منصوبے کے ذریعے آمد و رفت، تجارت اور سیاحت کے فروغ کے سلسلے میں بے پناہ آسانیاں فراہم ہوں گی۔ 
جنوبی ایشیا میں نریندرمودی کی انہی خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے صورت حال تیزی سے بگڑتی جا رہی ہے۔ اگر بھارتی قیادت کی پالیسیاں صرف بھارت کے عوام کی فلاح و بہبود تک محدود رہیں تو اس پر کسی کو کیا اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن امریکہ کے ایما پر بھارتی قیادت اس خطے میں جارحیت اور خطے کے چھوٹے ممالک کے لئے خوف کا باعث بن رہی ہے۔ جنوبی ایشیا کو روایتی اور ایٹمی اسلحہ کا ڈھیر بنانے کے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں؟ بحرہند میں ایٹمی اسلحہ سے لیس بھارت کی چھوٹی کشتیوںکے گشت کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ کیا یہ حکمت عملی اس خطے میںقیام امن کا باعث بن سکتی ہے اور کیا بحر ہند کو بھی جدید ایٹمی اسلحہ سے لیس کر کے 
بھارت سمندری پانیوں پر امریکہ کے تعاون سے اپنی بالاستی قائم کرنا چاہتا ہے؟ دراصل اس صورت حال پر امریکہ کو غور کرنا چاہیے۔ کیا وہ سرد جنگ کے زمانے کو دوبارہ بحال کرنا چاہتا ہے؟ سرد جنگ کی وجہ سے پوری دنیا کی معاشی ترقی متاثر ہوئی تھی، ایٹمی جنگ کا خطرہ ہر لمحہ موجود رہتا تھا۔ ان معروضی حالات میں پاکستان اپنی سالمیت اور بقا کے لئے جو اقدامات کر رہا ہے اس کا تعلق جارحیت سے ہے اور نہ ہی وہ روایتی یا ایٹمی جنگ کا خواہاں ہے۔ پاکستان نے اس خطے میں دہشت گردی کے خلاف جو جنگ لڑی ہے اور لڑرہا ہے، اس کو آئندہ نسلیں صدیوں تک یاد رکھیں گی۔ امریکہ پاکستان کو بھارت کے ذریعے تباہ کرکے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکے گا، بلکہ ان غیر ذمہ دارانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کے باعث یہ پورا خطہ نیست و نابود ہو سکتا ہے۔ 
افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کے لئے تیار رہتی ہے۔ طورخم چیک پوسٹ پر اس کی گولہ باری اور پاکستانی فوج کے میجر کی شہادت اس کی تازہ مثال ہے۔ ان کارروائیوں سے پورے خطے کا امن درہم برہم ہو سکتا ہے۔ اس خطے میں امن کا قیام صرف پاکستان کی ذمہ داری نہیں بلکہ خطے کے تمام ممالک کی بھی ہے۔ امریکہ کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے اور پاکستان کے خدشات کو دور کرنے کے لئے نظر آنے والے اقدامات کرنے چاہئیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں