امن تباہ کرنے کی سازش

عظیم قوال امجد صابری کے قتل کا سانحہ کبھی بھلایا نہ جا سکے گا۔ اس افسوسناک اور دردناک واقعہ نے کراچی سمیت پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا ہے، ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کراچی ایک بار پھر دہشت گردوں کی کارروائیوں کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ امجد صابری کے قتل سے قبل سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے بیٹے کو نامعلوم افراد نے اغوا کر لیا۔ اب تک ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ سندھ کے وزیراعلیٰ نے چیف جسٹس صاحب کے بیٹے کی اطلاع دینے والے کو ایک کروڑ روپے دینے کے انعام کا اعلان کیا ہے، اور یہ بھی کہا ہے کہ اطلاع دینے والے کے نام کو خفیہ رکھا جائے گا، اس کے علاوہ ایک ہفتہ قبل دو اور افراد کو قتل کردیا گیا جن میں ایک ڈاکٹر تھا۔کراچی میں گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران جو تشویشناک واقعات ہوئے ہیں اس نے اس حقیقت کو نمایاں کردیا ہے کہ ٹارگٹڈآپریشن کی تمام ترکامیابیوں کے باوجود بعض جگہ دہشت گرد کراچی میں موجود ہیں اور ان کے سہولت کار بھی !اس کے علاوہ ''را‘‘ کے ایجنٹ بھی اس گمبھیر صورتحال سے فائدہ اٹھا کر شہر میں افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں، جیسا کہ قارئین کو معلوم ہوگا کہ دوسال قبل کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کی مرضی اور مکمل حمایت سے شروع کیا گیا تھا ، کیونکہ گزشتہ دس سالوں کے دوران کراچی آگ و خون کا میدان بن چکا تھا، اس شہر کو اس صورتحال سے دوچار کرنے میں بعض سیاسی ومذہبی جماعتوں کا واضح کردار تھا، یہ دوسری بات تھی کہ کراچی کے عوام خوف اور اپنی جان ومال کی عزت کی بنا پر کھل کر کسی ایک جماعت کو اس کا ذمہ دار قرار نہیں دے رہے تھے، لیکن اس حقیقت سے کسی کو کیا انکار ہوسکتا ہے کہ صورتحال کی اصلاح کی تمام تر ذمہ داری پیپلز پارٹی کی حکومت پر عائد ہوتی ہے جو گزشتہ آٹھ سالوں سے بلا شرکت غیرے اقتدار پر فائز ہے اورجس کے وزراء نہ تو وفاتر میں نظر آتے ہیں اور نہ ہی ان علاقوں میں جہاں سے ان کو منتخب کیا گیا ہے۔خود سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اس بات کا نوٹس لیاہے، لیکن کیونکہ قائم علی شاہ ان وزرا کی نہ تو تادیب کرسکتے ہیں اور نہ ہی انہیں ہدایت کرسکتے ہیں کہ وہ صوبہ سندھ کی بلا امتیاز خدمت کریں اور عوام کے مسائل کو حل کرنے میں اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی کوشش کریں، یہی وجہ ہے کہ ٹارگٹڈ آپریشن تمام تر کامیابیوں کے باوجود ایک بار پھر کراچی کے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کررہا ہے کہ آخر یہ ناکامی کی طرف کیوں جارہا ہے؟ جبکہ کراچی میں رینجرز اور پولیس دونوں باہم مل کر جرائم پیشہ عناصر کی بیخ کنی کرنے میں بڑے حوصلے کے ساتھ اپنا فریضہ انجام دے رہے ہیں؟ اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ سندھ کی حکومت پر کسی قسم کا چیک اینڈ بیلنس نہیںہے، اس حکومت کی ڈور آصف علی زرداری باہر بیٹھ کر ہلارہے ہیں، جبکہ بلاول اپنی سوچ کے مطابق سندھ حکومت کو اپنے '' قیمتی مشوروں‘‘ سے نوازتے رہتے ہیں، لیکن اس کے باوجود سندھ حکومت کی کارکردگی سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سندھ کی حکومت نے بلدیاتی نظام کو بحال نہیں کیا ہے، حالانکہ انتخابات ہوچکے ہیں نتائج بھی سامنے آگئے ہیں لیکن بلدیاتی نظام کو سندھ حکومت نے یرغمال بنا لیا ہے، ظاہر ہے کہ اگر بلدیاتی نظام کو بحال کردیا جاتا ہے تو بہت حد تک اس شہر کی سیاسی ، معاشی ومعاشرتی صورتحال کسی حد تک تبدیل ہوسکتی ہے، ویسے بھی موجودہ بلدیاتی نظام کو سندھ کی حکومت اپنی سوچ وسمجھ کے مطابق ایسی ہیئت میں تبدیل کردیا ہے کہ یہ حقیقی معنوںمیں بلدیاتی نظام نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود سندھ کی حکومت کو چاہے کہ وہ اس کو فوراً بحال کرکے کم از کم سندھ کو مزید تباہی سے بچانے کی کوشش کرے ورنہ لاء اینڈ آرڈر کے حوالے سے صورتحال مزید بگڑسکتی ہے، اس بلدیاتی نظام پر سیاسی جماعت کی نمائندگی موجودہے۔
بلدیاتی نظام کی بحالی کے علاوہ سندھ کی تمام سیاسی جماعتوں کو ایک بار پھر مل بیٹھ کر کراچی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی اصلاح کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے، محض احتجاج کرنے سے یا اخبارات اور ٹی وی پر تبصروں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، اس کے لئے صوبے کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات کرنے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ ڈائیلاگکے ذریعے اس دودھ دینے والی گائے یعنی کراچی کو بچا کر اس کی ماضی کی رونقوں کوبحال کیا جاسکے، ویسے بھی اس شہر میں دس پندرہ سالوں کے دوران بے گناہ اور معصوم لوگوں کا جو خون بہاہے، اس کا تقاضا ہے کہ ہم سب با ہم مل کر ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ مثبت انداز فکر کو اپناتے ہوئے کراچی کے لوگوں کے مسائل حل کرتے ہوئے آگے کی طرف بڑھیں تاکہ عوام کی پریشانیوں اور مصائب کم سے کم ہو سکیں اور عوام کا سیاست دانوں پر اعتماد بحال ہو سکے، ورنہ شمع کی لو پھڑپھڑاتی رہے گی۔
جیسا کہ میں نے بالائی سطور میں لکھا ہے کہ امجد صابری کا بہیمانہ قتل کراچی کے امن کو ایک بار پھر تباہ کرنے کی کوشش کی ہے، جس کے تانے بانے کچھ اندر سے اور کچھ باہر سے جڑے ہوئے ہی۔ ٹارگٹڈ آپریشن کے کپتان کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ کراچی میںگزشتہ دنوں سے جو ناخوشگوار واقعات ہورہے ہیں ان کے پیچھے کون سی طاقتیں کام کررہی ہیں۔ انہیں پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے باخبر رکھے ہوئے ہیں ۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ حقائق کا سامنا کرنے کا حوصلہ پیدا کریں تاکہ قانون اور انصاف کی روشنی میں ایسے عناصر کی بیخ کنی ہوسکے جو کراچی کا امن تباہ کررہے ہیں اور حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہم موجودہیں اور جب چاہیں جس جگہ چاہیں اپنی مذموم کارروائیاں کرسکتے ۔قائم علی شاہ کو یہ بات بھی سمجھنی چاہئے کہ سیاست میں اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن سندھ بالخصوص کراچی کی ترقی اور امن کے قیام کے حوالے سے کسی کو کیا اعتراض ہوسکتاہے؟ آخر ہم سب کا مسکن یہی ہے، اور اس کی مجموعی ترقی ،امن اور خوشحالی سے آئندہ نسلوںکی تقدیر وابستہ ہے، کیا اس خوبصورت تقدیر کو تخلیق کرنا ہم سب کی ذمہ داری نہیں ہے، ذراسوچئے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں