مسئلہ کشمیر اور چین

ہر گزرتے دن کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کا ظلم بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں، بزرگوں اور خواتین میں جذبہ آزادی اور حریت بھی تقویت پا رہا ہے۔ یہ روز بروز بڑھ رہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ عالمی برادری بھارت کے اس ظلم وبربریت پر ہمیشہ کی طرح خاموش نظر آرہی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اسے بھارت کے ساتھ اپنے معاشی و تجارتی مفادات زیادہ عزیز ہیں نہ کہ انسانی جانیں۔ مقبوضہ کشمیر میںاس گمبھیر انسانی حقوق کی پامالی اورجاری بھارتی بربریت کے خلاف چین نے آواز بلندکی ہے اور بھارت کو متنبہ کیا ہے کہ جو کچھ مقبوضہ کشمیر میںہورہا ہے اس پر چین کو گہری تشویش ہے۔نیز چین کی کشمیر سے متعلق پالیسی میںکوئی تبدیلی نہیںآئی ہے۔چین کشمیری عوام کے حق ارادیت کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ بھارت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میںاس پر عمل درآمد کرانے کا پابند بھی ہے۔ چین نے مقبوضہ کشمیر میںبھارتی فوجیوں کی نہتے کشمیریوں پر ظلم پر جس طرح للکارا ہے اس نے بھارت کی حکومت کو گہری تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔بھارت کو یہ امید نہیںتھی کہ چین مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں مداخلت کرے گا اور اس سے متعلق اپنی حکومت کی پالیسی کا واضح اعلان کرے گا، لیکن چین نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم وجور کے خلاف آواز بلند کرکے کشمیریوں کا حوصلہ بلند کیا ہے بلکہ بڑی وضاحت سے کہا ہے کہ وہ کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو ہر سطح پر تسلیم کرتا ہے۔
اس وقت جب یہ کالم لکھا جارہاہے مقبوضہ کشمیر سمیت پوری دنیا میں جہاں جہاں کشمیری آبادہیں وہاں یوم سیاہ منایا جارہاہے، بھارتی فوج کے ظلم پر سخت ترین الفاظ میںمذمت کی جارہی ہے، اور مظاہروں کے ذریعہ عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑا جارہاہے، تاکہ وہ مقبوضہ کشمیر میںبھارتی فوج کے ظلم وتشدد کو روکنے میںاپنا کردار ادا کریں۔ 19جولائی کویوم سیاہ کے علاوہ کشمیر کا پاکستان کے ساتھ یوم الحاق بھی منایا گیاتھا، یوم الحاق کے موقع پر مقبوضہ کشمیر کے علاوہ پاکستان میںعوام نے اس سلسلے میں ہونے والے مختلف سیمینار ز میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک نہ ایک دن مقبوضہ کشمیر پاکستان کا حصہ بن جائے گا، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ سے تعبیر کیا ہے، گرچہ بھارت اس کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دے رہا ہے، لیکن حال ہی میں واعظ عمر فاروق نے اپنے ایک تازہ مضمون میںبڑی وضاحت کے ساتھ زور دے کر یہ بات کہی ہے کہ کشمیر 1947ء سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازع مسئلہ ہے جس کو اقوام متحدہ کے علاوہ پوری دنیا نے بھی تسلیم کیا ہے۔خود کشمیر کے عوام اپنے آپ کو بھارت کا حصہ نہیںسمجھتے ہیں اور نہ ہی کشمیر کی تین ہزار سالہ تاریخ میںکشمیر بھارت کا حصہ رہاہے، 1931ء سے کشمیر کے عوام اپنی آزادی ، مذہب اور ثقافت کے تحفظ کے لئے پہلے ڈوگرا راج کے خلاف اور اب بھارتی سامراج کے تسلط اور ظلم کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں۔ اس مثالی جدوجہد میں اب تک مقبوضہ کشمیر میں ایک لاکھ سے زائد عوام اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں اور اب بھی کررہے ہیں، بھارتی حکومت کو اپنے ذہن سے یہ بات نکال دینی چاہئے کہ 
مقبوضہ کشمیر کے عوام فوجی ظلم کے آگے اپنی جدوجہد ختم کردیں گے، اور بھارت کے ظالمانہ ناجائز تسلط کو تسلیم کریں گے، ایسا نہ ہوگا، اور نہ ہی ایسا ممکن نظر آرہا ہے۔
جہاں تک اس مسئلہ پر سیاسی مذاکرات کرنے کا تعلق ہے تو پاکستان اس کے لئے راضی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو ان مذاکرات میں شامل کیا جائے، کیونکہ کشمیر کے مسئلہ کا حل کشمیریوں کے پاس ہے جو اس کے اصل فریق ہیں اور براہ راست بھارتی فوج کے بہیمانہ ظلم وتشدد کا نشانہ بن رہے ہیں، لیکن بھارت کشمیری عوام کو ان مذاکرات میں شامل کرنے کے حق میںنہیں ہے۔ پاکستان سے مذاکرات کرنے میں بھی وہ زیادہ پر جوش نظر نہیں آتا اور نہ ہی اسے اس ضمن میں کوئی خاص دلچسپی ہے، ٹریک ٹو ڈپلومیسی بھی بھارت کو پسند نہیںہے، یہ سلسلہ بھی رکا ہوا ہے، چنانچہ مسئلہ پھر وہی ہے کہ بھارت آخر چاہتا کیا ہے ؟ کیا محض 
طاقت کے ذریعہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو دباکر سیاسی وسماجی حالات بدلنا چاہتاہے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بربریت،طاقت اور تشدد کے بھارتی فلسفہ کو مسترد کردیا ہے، اور وہ مسلسل اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے عالمی سطح پر اپنے بنیادی حقوق حاصل کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں ، مزید برآںپاکستان کشمیر کے مسئلہ پر ایک فریق ہے پاکستان اپنی اس تسلیم شدہ حقیقت سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا، یہ دوسری بات ہے کہ اس مسئلہ کا حل پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک اور جنگ میں نہیں ہے،اور نہ ہی پاکستان جنگ چاہتاہے۔بھارت اگر سمجھتا ہے کہ اس کے سنگین مظالم اور بربریت کی داستانیں جہدوجہد آزادی کشمیر کو دبا دیں گی یا وہاں کے لوگوں میں جذبہ حریت کمزور پڑ جائے گا‘ تو یہ اس کی بھول ہے۔ بھارت نہتے کشمیری عوام پر مظالم کے جتنے پہاڑ توڑے گا‘ یہ جدوجہد اتنی ہی مضبوط ہو گی۔ جہاں تک کشمیر میں موجود بھارت کے سات لاکھ فوجیوں کی بات ہے‘ تو گزشتہ چھ عشروں سے وہاں یہ لاکھوں فوجی جدید اسلحے ‘بڑی تعداد اور بھارت کی پشت پناہی کے باوجود کشمیر کی تحریک کو دبا نہیں سکے اور دبانا تو دُور کی بات اسے کمزور تک نہیں کر سکے۔بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے تو کہتا رہے‘ ہو گا وہی جو کشمیری عوام چاہیں گے۔بھارت اپنے گھنائونے ارادوں سے اقوام متحدہ اور دنیا کو جس طرح گمراہ کرتا آ رہا ہے‘ وہ بھی سب کے سامنے ہے۔دنیا بھر میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں مقبوضہ کشمیرمیں ہو رہی ہیں۔ایسے ایسے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں کہ ہر درد مند دل کانپ اٹھا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی خاطرجدوجہدکرنے والے بہادر کشمیری کمانڈربرہان وانی کوبھارتی فوجی درندوںنے جس ظالمانہ طریقے سے شہید کیا وہ قابل مذمت ہے۔
چین کا بھارت سے یہ مطالبہ درست معلوم ہوتاہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں نہتے عوام پر ظلم تشدد کوفی الفور بند کرے اور اس کا سیاسی حل تلاش کرے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں میں موجود ہے، ظاہر ہے کہ چین کی یہ ایک معقول اور بر وقت تجویز ہے جو حقیقی معنوں میں کشمیر کے متنازع مسئلہ کو حل کرنے میں معاون ومددگار ثابت ہوسکتی ہے، ویسے بھی بھارت مقبوضہ کشمیر میں اب تک چار لاکھ فوجیوں کی موجودگی اور عوام پر بے پناہ ظلم روا رکھنے کے باوجود ان کا دل ودماغ نہیں جیت سکا۔ اس نے مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کراکر بھی دیکھ لیا ہے، ان انتخابات کے ذریعہ بھی صورتحال میں کوئی تبدیلی وقوع پذیر نہیںہوسکی ہے، مقبوضہ کشمیر مسلسل جل رہا ہے، اور نہتے عوام پر بھارتی بربریت جاری ہے، بھارت بدنام ہورہا ہے اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ طاقت اور تشدد کے ذریعہ مقبوضہ کشمیر میں جلد با دیر امن قائم کرلے گا، اور حالات معمول پر آجائیں گے یہ اس کی بھول ہے، غالباً اس دفعہ ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے، بھارت کب تک پاکستان پر مقبوضہ کشمیر میں ''پراکسی وار‘‘ کا الزام لگا کر دنیا کو دھوکہ دیتا رہے گا؟ آخر ایک دن اس کو کشمیری عوام کے جذبہ آزادی کے سامنے سرنگوں ہونا پڑے گا کیونکہ ظلم جب بڑھتا ہے تو مٹ جاتاہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں