سفیروں کی کانفرنس کا کیا نتیجہ نکلا؟

اس ماہ کے شروع میں وزیراعظم نواز شریف نے دس اہم ممالک میں تعینات پاکستانی سفیروں کی کانفرنس کا اہتمام کیا تھا، جس میںپاکستان کے داخلی معاملات کے علاوہ پاکستان کے بیرونی ممالک میں امیج سے متعلق بڑی تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ سفیروں نے اپنے روایتی انداز میں اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی اور وزیراعظم کے سامنے یہ عہد کیا تھا کہ وہ واپس جاکر پاکستان کی خارجہ پالیسی خصوصیت کے ساتھ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی کوششوں اور قربانیوں کو مؤثر طریقے سے اجاگر کریں گے، نیز بھارت کی جانب سے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی پالیسی کا بھر پور جواب دیں گے، لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہمارے سفیرصاحبان نے نشستن ، گفتن، برخاستن کو ہی کافی سمجھا اور اپنی روایتی تساہلی اور سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ابھی تک کانفرنس کے اہم نکات پر عمل درآمد نہیں کیا۔یہی وجہ ہے کہ ابھی تک پاکستان کا امیج اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کے موقف کو عالمی سطح پر خصوصیت کے ساتھ برطانیہ، امریکہ، پیرس، اور روس میں وہ پذیرائی نہیںمل سکی جس کا پاکستان ہر لحاظ سے مستحق ہے۔ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ حکمرانوں کے ذہن میں پاکستان سے متعلق کوئی واضح پالیسی نہیںہے، وہ روزمرہ کی بنیاد پر پاکستان کے معاملات چلارہے ہیں، اور انہی معاملات سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار بیان کی صورت میں میڈیا کے ذریعہ عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں، مزیدبرآں انہوںنے ابھی تک کسی کو وزیرخارجہ کا قلمدان نہیں سونپا۔ اس کی ایک وجہ تو شاید یہ ہے کہ انہیں اپنے علاوہ کسی دوسرے پر اعتبار نہیں ہے جس کو یہ اہم منصب سونپا جاسکے، کیونکہ وزیراعظم کے بعد دوسرا بڑا اہم منصب وزیرخارجہ کا ہوتا ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کوئی سمت نہیںہے، سرتاج عزیز پیرانہ سالی کے باوجودنیز اپنے تجربے کی روشنی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کو سنبھالے ہوئے ہیں، لیکن خارجہ پالیسی کی تشکیل اور اس پر تمام تر دیانت اور سنجیدگی کے ساتھ عمل پیرا ہونے کے لئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے، جس کا فقدان نظر آرہا ہے اور محسوس بھی کیا جارہا ہے، دوسری طرف میاں نواز شریف کا زیادہ وقت اس سوچ میں گزر رہا ہے کہ کس طرح اپنے آپ کو پاناما لیکس کے حوالے سے بچایا جاسکے، پانامالیکس حکمرانوں کو پریشان کئے ہوئے ہے، پاکستان کے عوام کی اکثریت جانتی ہے کہ حکمرانوں نے یہ دولت ناجائز طریقے سے حاصل کی ہے اور پاکستان کے مفادات کو فروخت کرکے کمائی ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں ان سے اس دولت کا حساب طلب کررہی ہیں اور ان کے خلاف الیکشن کمیشن میں ریفر نسز بھی داخل ہوئے ہیں، ان ریفرنسز کی روشنی میں وزیراعظم کو چھ ستمبر کو طلب کر لیا گیا ہے۔ 
دراصل حکمرانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کو ایک تجارتی فرم کی طرح چلا رہے ہیں، وہ زیادہ تر وقت اپنی دولت کو بچانے کے لئے مختلف زاویوں پر غور کر رہے ہیں، ان کی اس سوچ کو وہ خوشامدی تقویت پہنچاتے رہتے ہیں،وہ انہیں ڈٹے رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں اور فوج سے بھی ڈراتے رہتے ہیں ،لیکن اس کے باوجود وہ ان حالات سے نکل نہیں پا رہے ہیں، اس سلسلے میں وہ جو بھی خفیہ یا ظاہر تدابیر اختیار کر رہے ہیں‘ وہ ناکام ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے، ان کا دوسرا مسئلہ بھارت کے ساتھ ان کی رفاقت ہے، یہ رفاقت ان کے لئے ہر گزرتے دن کے ساتھ مہنگی پڑ رہی ہے، اب پاکستان کے عوام ان کی حب الوطنی پر بھی شک کر رہے ہیں، مزیدبرآں پاکستان کے باشعور عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ انہوںنے پاکستان دشمن اور مسلمان دشمن بھارت کے وزیراعظم نریندرمودی کو کیوں اپنے گھر طلب کیا تھا، اور اس کے ساتھ اپنے گھر میں تنہائی میں کیا باتیں کی تھیں؟ اس ضمن میں حقیقت یہ ہے کہ جب سے مودی نے پاکستان کی سرزمین پرقدم رکھا تھا، اس کے بعد پاکستان کے مختلف علاقوں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوچکا ہے، تازہ ترین دہشت گردی کا واقعہ کوئٹہ کے سول اسپتال میں رونما ہوا تھا، جس میں وکلاء کی ایک بڑی تعداد شہید ہوگئی تھی، اور سیکڑوں زخمی بھی ہوئے تھے، اس کے علاوہ پاکستان کے خلاف الطاف حسین کی ہرزہ سرائی بھی بھارت کی پاکستان کے خلاف سازش کی ایک ناقابل تردید حقیقت بن کر سامنے آئی ہے، ہمارے حکمران پاکستان کے خلاف ان سازشوں کے سلسلے میں صرف اپناخباری بیان جاری کرنے لگ جاتے ہیں اور اسی کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے معروضی حالات کے پس منظر میںحکمرانوں کا یہ رویہ پاکستان کے استحکام کے حوالے سے مناسب نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ عناصر جو پاکستان کو نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں، ان کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں، اگر کراچی سمیت رینجرز اور پولیس دہشت گردوں کے خلاف بڑی تیزی سے اپنے فرائض انجام نہ دیں تو دہشت گرد غیر ملکی طاقتوں کی مدد سے پاکستان کو مزید نقصان پہنچانے سے دریغ نہ کریں، تاہم پاکستان کے ان نامساعد حالات کے پس منظر میں ایک اچھی بات یہ ہے کہ فاٹا اصلاحات کی سفارشات پر نیشنل ایکشن پلان کے تحت عمل درآمد ہوتا ہوا نظر آرہا ہے، عسکری قیادت فاٹا اصلاحات کے سلسلے میں زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کررہی ہے ، کیونکہ فاٹا کے عوام نے دہشت گردی کے خاتمے اور پاکستان دشمن عناصر کی سرگرمیوں کو روکنے کیلئے ضرب عضب کی کارروائیوں کا بھر پور ساتھ دیاہے، اور اب بھی دے رہے ہیں فاٹا اصلاحات کے ذریعے یہ پسماندہ لیکن قدرتی وسائل سے مالا مال علاقے جلدپاکستان کے مرکزی دھارے میںشامل ہوجائیں گے، جس کی وجہ سے پاکستان کو غیر معمولی استحکام حاصل ہوگا، تاہم اب وقت آگیاہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف کھل کر بھارت کی پاکستان کے اندر مداخلت کی مذمت کریں اور پاکستان سے اپنی محبت کا ثبوت دیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں