اس وقت جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں، مقبوضہ کشمیر میںحالات بدستور خراب بلکہ خوفناک صورت حال سے دوچار ہیں۔ اب تک 90 سے زائد کشمیری جوان، بزرگ اور بچے اپنے سیاسی، معاشی اور ثقافتی حقوق کی خاطر قربانیاں دے چکے ہیں اور مسلسل دے رہے ہیں۔ عالمی برادری بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بد ترین پامالی پر برا بھلا کہہ رہی ہے اور مودی سرکار کومتنبہ کر رہی ہے کہ حالات کو سدھارا جائے، نہتے کشمیریوں پر ہولناک حربی ہتھیاروں کا استعمال روکا جائے نیز رکے ہوئے سیاسی عمل کو بحال کرنے کی کوشش کی جائے۔ پاکستان کے ساتھ تنازع کشمیر پر بات چیت کا آغاز کرنا خود بھارت کے لئے مفید ثابت ہوگا۔ خود امریکہ جس کے وزیرخارجہ نے حال ہی میں بھارت کا دورہ کیا، ایک بار پھر کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پر تشدد واقعات کو فوراً بند ہونا چاہئے اور اس مسئلہ کے حل کے لئے سیاسی راستہ اختیار کیا جائے۔ لیکن افسوس، ابھی تک مودی سرکار پر ان مشوروں اور تجاویز کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی طرف سے بدستور اپنے حقوق کی بازیابی کے سلسلے میں احتجاج جاری ہے۔ کرفیو اور بھارتی فوج کی جانب سے سخت ترین ناکہ بندی کے باوجود حریت کے متوالے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ناجائز قبضے کو چیلنج کر رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر مخلوط حکومت کی سربراہ محبوبہ مفتی نے وزیراعظم مودی سے ملاقات کرکے انہیں وہاں کے زمینی حالات سے آگاہ کیا ہے، لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ان کی نریندر مودی سے ملاقات ناکام رہی ہے۔ جب وہ میڈیا سے باتیں کر رہی تھیں تو ان کے چہرے پر تاسف کے اثرات نمایاں تھے۔ مقبوضہ کشمیر میں نوجوانوں کی حالیہ تحریک کے حوالے سے مودی نے ایک ہی رٹ لگائی ہوئی ہے کہ اس تحریک کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے؛ حالانکہ بھارت کے سابق سیکرٹری خارجہ کے علاوہ متعدد بھارتی دانشوروں نے بر ملا کہا ہے کہ یہ تحریک برہان وانی کی موت کے بعد شروع ہوئی تھی۔ برہان وانی کو شہید کرنے کا منصوبہ بہت عرصہ پہلے بنالیا گیا تھا، اس میں محبوبہ مفتی کو بھی اعتماد میں لیا گیا تھا، اب وہ اپنے ہم وطنوں کی شہادت اور ان پر بھارت کی قابض فوج کی جانب سے بڑھتا ہوا ظلم و تشدد دیکھ کر مگر مچھ کے آنسو بہ ارہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر ظلم نے اب بھارت کی جموں وکشمیر میں حاکمیت کے تصور کو تقریباً ختم کر دیا ہے۔ آئندہ آنے والے دنوں میں مقبوضہ کشمیر میں صورت حال مزید خراب ہوگی۔ مودی سرکار اس خطۂ جنت نظیر سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کے لئے پاکستان کے خلاف اپنے انتہا پسند ساتھیوں کے مشورے سے ''حملہ‘‘ کرنے کا سوچ رہا ہے کیونکہ اس کی پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ گڑبڑ کرانے کی تمام سازشیں ناکام ہوگئی ہیں، اس لئے اب وہ براہ راست اس خطرناک مہم جوئی کے بارے میں تبادلہ خیال کر رہا ہے۔ اس کا مشیر اجیت دوول بھی اس کا ہم خیال ہے۔ یہ وہی شخص ہے جس نے بھیس بدل کر پاکستان کے خلاف جاسوسی کی تھی، اس کے کارندے اس کی ہدایت پر لندن میں ایم کیو ایم کے رہنما سے ''بات چیت‘‘ کرتے رہتے ہیں۔ کراچی میں 22 اگست کا معاملہ بھارت کی پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے، جس میں الطاف حسین کا کردار واضح ہے۔
کشمیر اقوام متحدہ کی رو سے بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازع مسئلہ ہے۔ کشمیری عوام جو 1931ء سے اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں، قربانیاں دے رہے ہیں، وہ کس طرح موجودہ ناگفتہ بہ حالات میں اپنے حقوق سے دستبردار ہوسکتے ہیں؟ کشمیر کی تین ہزار سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ حسین خطہ ہمیشہ سے آزاد رہا ہے۔ مختلف ادوار میں اس کی آزادی کو سلب کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکیں۔ آج بھی بھارت کی قابض فوج کی جانب سے بہیمانہ ظلم وتشدد روا رکھے جانے کے باوجود جذبہ حریت تابندہ ومتحرک ہے۔ کشمیریوں کے اسی جذبے
کے سامنے انتہا پسند اور مسلمان دشمن بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پریشان وہراساں ہے۔ وہ اس مسئلے کو سیاسی عمل کے ذریعے حل کرنے سے گریز اں ہے، بلکہ مقبوضہ کشمیر میں مزید تشدد کے ذریعے آزادی کی تحریک کو خاموش کرنا چاہتا ہے جو تقریباً نا ممکن ہے۔ اس سلسلے میں بھارت کے ایک نامور دانشور جناب نورانی نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ کیا پاکستان ہزاروں کی تعداد میں مقبوضہ کشمیر میں تخریب کاروں کو بھیج کر یہ سب کچھ کرا سکتاہے جو اس وقت ہو رہا ہے۔ بھارت کی سوچ پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے، دوسرے لفظوں میں کیا ایسا ممکن ہے؟ دراصل مودی روز اول سے مسلمانوں اور پاکستان دشمنی اتر ا ہوا ہے، اس نے 2014ء میں وادی میں بی جے پی کو عام انتخابات میں اتارا تھا اور بھارت نواز انتظامی مشینری کی مدد سے چند سیٹیں بھی جیت لی تھیں جس کے نتیجے میں وہاں مخلوط حکومت بھی بنالی، لیکن مخلوط حکومت بھی مقبوضہ کشمیر کے مسائل حل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی؛ حالانکہ وادی کے کشمیریوں نے انتخابات کے انعقاد کی صورت میں بھارت کی مرکزی حکومت کو یہ موقع دیا تھا کہ وہ ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرے گی، لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔ اب مقبوضہ کشمیر میں وہی صورت حال ابھر کر سامنے آئی ہے جو 2010ء میں تھی۔
ایک اور اہم بات جو نریندرمودی اور اس کے انتہاپسند ساتھیوں کو فراموش نہیں کرنی چاہئے وہ یہ ہے کہ کشمیر نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازع مسئلہ ہے بلکہ شملہ معاہدے کے رو سے بھی اس کی یہی حیثیت ہے۔ شملہ معاہدے میں خصوصیت کے ساتھ اس کے پیراگراف چھ میں بڑی وضاحت سے یہ لکھا گیا ہے کہ کشمیر، بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازع مسئلہ ہے جس کو سیاسی عمل کے ذریعہ حل ہونا چاہیے۔ ہر چند کہ اندرا گاندھی نے بعد میں اپنے بیان میں جہاں مسئلہ کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان Disputed territory قرار دیا اور اس کو تسلیم بھی کیا لیکن یہ بھی کہا تھا کہ یہ بھارت اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ مسئلہ ہے جس کو بات چیت کے ذریعہ حل کرنے کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ مسئلہ نہیںہے، یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جس کو اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کیا ہے۔ کارگل کی جنگ نے بھی یہ ثابت کردیا تھا کہ کشمیر محض پاکستان اور بھارت کے درمیان ''دوطرفہ‘‘ مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جس کو کشمیری عوام کی مرضی کی روشنی میں حل ہونا چاہیے؛ تاہم نریندرمودی سرکار جس طرح طاقت اور تشدد کے ذریعہ نہتے کشمیریوں پر ظلم کر رہی ہے، اس کا انجام نہایت ہی بھیانک نکل سکتا ہے۔ عالمی برادری سمیت بھارت کی سرکار کو ٹھنڈے دل سے اس مسئلہ پر غور کرنا چاہیے۔