ملک کو درپیش تین سنگین مسائل

چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب ظہیر جمالی کے بقول اس وقت پاکستان کو تین بڑے مگر سنگین مسائل گھن کی طرح کھا رہے ہیں۔پہلا مسئلہ اچھی طرز حکمرانی گڈ گورننس کا فقدان ہے، دوسرا کرپشن اور تیسرا میرٹ کا نہ ہونا۔ ان تین اہم مسائل کی وجہ سے پاکستان اس وقت ترقی نہیں کر پا رہا۔ دوسری طرف اس مملکت خداداد کو اس نہج پر پہنچانے میں ان سیاست دانوں کا بڑا ہاتھ ہے جو اس پر حکومت کرتے رہے ہیں، اس وقت بھی جو حضرات حکومت کررہے ہیں انہوںنے درست راستے کا انتخاب نہیںکیا۔ اس سے قبل کی حکومت جس نے ملک کے وسائل لوٹنے اور ذاتی تصرف میں لانے کا ریکارڈ قائم کیا تھا اب بھی سندھ میں یہی کچھ کر رہی ہے۔ اس وقت انہی کے ساتھی اقتدار پر براجمان ہیں جن سے عوام کو امیدیں نہیں رہیں۔ پاکستان کے عوام کے لئے وہ باعث کشش نہیں رہے۔ اگر کوئی اور ملک ہوتا اورا س کے سربراہ پر اس قسم کے الزامات لگتے جو ہر طرف سے لگ رہے ہیں، تو وہ کبھی کا استعفیٰ دے چکا ہوتا، لیکن حکمران اقتدار سے مسلسل چمٹے ہوئے ہیں۔
اس ضمن میںکراچی کے معروف صنعت کار کہتے ہیںکہ حکمران بڑے پیسے بنارہے ہیں،تاہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان کی عدلیہ اور ریاست کے دیگر ادارے جس میں فوج بھی شامل ہے اس انتہائی خراب اور خستہ صورتحال کے سامنے خاموش بیٹھے رہیں گے؟ کون آخر اس صورتحال کی اصلاح کرے گا؟ جب تک پاکستان کے مقتدر ادارے جن پر ریاست کو چلانے کی اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ایسے مواقع پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے تو پاکستان کا کیا بنے گا؟جہاں تک پاکستان کے عوام کا تعلق ہے اب ان کے پاس اتنا دم خم نہیں ہے کہ اپنا روزگار چھوڑ کر سیاست دانوں کے ایما پر سڑکوں پر آکر حکومت کو غیر فعال بنا کر گرا دیں ، جہاں تک جلسے جلسوں میں شرکت کرنے کا سوال ہے تو یہ ان کے لئے تفریح طبع کا سامان ہے ، جہاں وہ تلخ اور کڑوی باتیں سن کر نہ صرف مزہ لیتے ہیں بلکہ خوش ہوکر دل کی بھڑاس بھی نکالتے ہیں۔ عوام کی اس بے بسی کا برسراقتدار ٹولہ پورا پورا فائدہ اٹھاتا ہے، اور اپنے ترجمانوں کے ذریعہ عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اپوزیشن یہ سب کچھ ان کے خلاف جمہوریت کو پٹری سے اتارنے کی کوشش کررہی ہے، حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ پاکستان میںنہ تو جمہوریت ہے اور نہ ہی قانون کی بالادستی یا اس کا احترام، جس کے ذریعہ جمہوریت کا کاروبار چلتاہے۔
جیساکہ میں نے بالائی سطور میں لکھا ہے کہ کرپشن کی وجہ سے پاکستان نہ صرف اپنے معاشی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے، بلکہ قرضہ لے کر قرضے اتارنے کا روایتی مگر فرسودہ طریقہ کار جاری وساری ہے جس کی وجہ سے مملکت ہرگزرتے دن کے ساتھ کمزور سے کمزور تر ہورہی ہے، جب تک پاکستان معاشی طورپر اپنے پیروں پر نہیں کھڑا ہوگا، اس وقت تک پاکستان میں ہر طرف سے بیرونی اور اندورنی دشمنوں کی یلغار جاری رہے گی، ظاہر ہے کہ اگر خاکم بدہن پاکستان کو کچھ ہوگیا جیسا کہ پاکستان کے اندر سے کچھ غدار وطن ایسا چاہتے ہیں تو یہ کرپٹ لوگ اپنا بوریابستر لے کر چارٹرڈ ہوائی جہازوں کے ذریعہ پاکستان سے 
فرار ہوجائیں گے، جبکہ مصائب کے انبار غریب عوام پر پڑے گا، جو پہلے ہی سے دردناک اور تکلیف دہ غربت کے اندھیروں میںزندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ارباب بست وکشاد صورتحال کو دیکھ رہے ہیں اور اس سے متعلق اپنا تبصرہ کرکے اپنی ''ذمہ داریاں‘‘ پوری کردیتے ہیں۔عوام یہ سوال کررہے ہیں کہ پاکستان کو اس ناقص اور بری طرز حکمرانی سے نکالنے میں کون اپنا کردار ادا کرے گا؟ کیا ملک یونہی لٹتا رہے گا؟ دوسر ی طرف ہمارا ازلی دشمن بھارت اس صورتحال سے پورا پورا فائدہ اٹھا کر پاکستان کے اندر اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ مزید افراتفری پیدا کررہا ہے۔ نریندرمودی سے خیر کی امید رکھنا یا پھر یہ توقع رکھنا کہ وہ پاکستان کے ساتھ اچھے ہمسائیگی کے تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے‘ قبرستان میں اذان دینے کے مترادف ہے۔اس مسلمان دشمن اور پاکستان دشمن شخص نے جی ٹوئنٹی کے حالیہ اجلاس میں چینی صدر کے ساتھ اپنی ملاقات میں سی پیک سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا، جس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ یہ بدگمان اور نامراد شخص اپنے دل 
میںپاکستان کی معاشی ترقی کے خلاف اپنے دل میں کتنا کینہ رکھتا ہے، جبکہ موجودہ حکومت کرنے والے اور مبینہ طورپر غریب عوام کے ووٹ خریدنے والے کس طرح اور کیوں کر پاکستان کے دوست ہوسکتے ہیں؟ وہ کیوں کر پاکستان کے استحکام اور عوام کی فلاح وبہبود کے لئے کام کریں گے؟ اس ضمن میں ایک ماہر معاشیات نے صحیح کہا ہے کہ اگر ہمارے کرپٹ حکمران صرف 100بلین ڈالر پاکستان لے آئیں تو پاکستان کے تمام بیرونی قرضے اتر سکتے ہیں۔ایسا مگر وہ کیوں کریں گے۔ انہیں تو اپنی دولت کو جمع کرنے کی فکر ہے۔ ہر طرف لوٹ مار جاری ہے۔ کرپشن ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ادارے کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ سرمایہ کاری میں کمی آ رہی ہے۔ قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اگر فوج امن و امان بہتر نہ بناتی تو ملک کی صورتحال ایسی نہیں ہوتی۔ سول اداروں کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہو گی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان کے سیاست دانوں ، تاجروں ، صنعت کاروںبعض ریٹائرڈ جرنیلوں کے بیرونی ممالک میں 500بلین ڈالر بینکوں میں رکھے ہوئے ہیں، صرف100بلین ڈالر لاکر پاکستان کو اقتصادی طورپر اپنے پیروں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے، کیا یہ لوگ ایسا نیک کام کرسکتے ہیں؟ ذرا سوچئے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں