جنرل راحیل شریف کا خطاب

6ستمبر کو یومِ دفاع کے موقع پر جی ایچ کیو میں تقریر کرتے ہوئے جنرل راحیل شریف نے بالکل درست کہا کہ پاکستان اب ناقابل تسخیر ہو گیا ہے، ہم دشمن کی ہر چال سے واقف ہیں اور ہر سطح پر اس کا مقابلہ کرنے کی اہلیت و صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ اس تقریب میں حاضرین کی بڑی تعداد ان افراد پر مشتمل تھی جن کے پیاروں نے وطنِ عزیز کی سالمیت، بقا اور خودمختاری کے لئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ آج کا مستحکم پاکستان انہی قربانیوں کا ثمر ہے، ورنہ اندرونی و بیرونی دشمن ہر لمحہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے گھنائونی‘ گھٹیا سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے بتایا کہ افواج پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف 19 ہزار آپریشز کئے‘ یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔ انہوں نے یہ بات ایک بار پھر دہرائی کہ کرپشن اور دہشت گردی کا چولی دامن کا ساتھ ہے‘ کرپشن کی وجہ سے پاکستان سے جمہوریت کا تصور مٹ چکا ہے، ورنہ چیک اینڈ بیلنس کی صورت میں یہ ایک اچھا سیاسی نظام ہے۔ جنرل راحیل شریف نے مزید کہا کہ پورے ملک میں ایکشن پلان پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ اس سے قبل بھی جنرل راحیل شریف نیشنل ایکشن پلان سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے مناسب توجہ نہ دینے کے باعث اور غلط ترجیحات کی وجہ سے نیشنل ایکشن پلان پر اب تک کلی طور پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے، نیز اس بات کا اظہار بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اگر فوج کا دبائو نہ ہو تو یہ لوگ کبھی آگے بڑھنے کی کوشش نہ کریں۔ بعض حلقے ایسا کام کرنے سے قصداً گریز کرتے 
ہیں، جو ملک اور عوام کے مفاد میں ہوتا ہے۔ جنرل راحیل شریف نے مزید کہا کہ ہم دوستی نبھانا جانتے ہیں اور دشمن کا قرض چکانا بھی! دشمن سن لے کہ پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہے۔ علاقائی صورتحال سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خطے میں امن کی اصل ضمانت طاقت کا توازن ہے۔ ان کا اشارہ بھارت کی طرف تھا، جس کو امریکہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت جدید اسلحہ سے لیس کر رہا ہے، نیز بھارت نے امریکہ کے ساتھ دفاعی سمجھوتے کرکے اپنی سرزمین‘ خصوصیت کے ساتھ ہوائی اڈوں کو امریکہ کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ نریندر مودی کی اس سامراجی پالیسی کے خلاف بھارت کی سول سوسائٹی کے علاوہ صحافیوں اور دانشوروں نے سخت احتجاج کیا اور کہا ہے کہ بھارت اور امریکہ کے درمیان دفاعی معاہدے سے جنوبی ایشیا میں روایتی اور جدید اسلحہ کی دوڑ شروع ہو چکی ہے۔ اس طرح اس خطے میں اس نئی صورتحال کی وجہ سے امن کے تمام امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔
جنرل راحیل شریف نے اپنی فکر انگیز تقریر کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، (یہی الفاظ قائد اعظم نے 1948ء میں ادا کئے تھے) انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام ایک بار پھر ریاستی دہشت گردی کا شکار ہیں، مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے سے ہی ممکن ہے، مقبوضہ کشمیر کے عوام کی حق خود ارادیت کی جدوجہد کی مکمل حمایت کرتے ہیں، پاکستان ان کی اخلاقی اور سیاسی مدد کرتا رہے گا۔ جنرل راحیل شریف نے سی پیک کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا اور کہا کہ یہ منصوبہ چین اور پاکستان کے مابین دوستی کی ایک عظیم مثال ہے، یہ منصوبہ (انشاء اللہ) ہر صورت میں مکمل ہو گا، اور پاکستان کی مجموعی ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کی بروقت تکمیل یقینی بنانا ہمارا قومی فریضہ ہے‘ کسی بیرونی طاقت کو اس منصوبے میں رخنہ ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
دراصل جنرل راحیل شریف کی تقریر پاکستان کے عوام کے احساسات اور جذبات کی ترجمانی کر رہی تھی۔ عوام کی اکثریت اس بات پر مکمل یقین رکھتی ہے کہ پاکستان کا وجود اور اس کا استحکام افواج پاکستان سے جڑا ہوا ہے۔ اگر جنرل راحیل شریف ضرب عضب شروع نہ کرتے تو دہشت گرد پاکستان کے اہم حصوں پر قابض ہو کر ریاست کو ناکام بنا دیتے۔ دہشت گردوں کو بھارت، افغانستان اور دوسرے پاکستان مخالف ممالک کی مالی امداد بھی حاصل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاست دانوں کے پاس ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے سلسلے میں کوئی ویژن نہیں۔ ان کی اکثریت اقتدار میں رہتے ہوئے اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے کرپشن کرکے اپنی تجوریاں بھر رہی ہے، اور مملکت کو کمزور کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل راحیل شریف کو 
ایک بار پھر یہ کہنا پڑا کہ کرپشن اور دہشت گردی باہم ملے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے مملکت کمزور ہو رہی ہے۔ یوم شہدا اور یوم دفاع کے موقع پر جنرل راحیل شریف کی تقریر نے عوام کو نئے حوصلے اور جذبے سے سرشار کیا ہے، اور پاکستان کی سالمیت سے وابستہ امید کے چراغوں کو روشن تر کر دیا ہے‘ جن کو دشمن اپنی عیارانہ چالوں سے بجھانا چاہتا ہے۔ اس تقریر سے بھارت کے انتہا پسند وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی احساس ہوا ہو گا کہ وہ بعض ممالک کی مدد سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی جس پالیسی پر عمل پیرا ہے‘ اس کی کامیابی اب ممکن نہیں کیونکہ یہ 1971ء کا پاکستان نہیں ہے۔ نریندر مودی پاکستان سے دوستی کرنے کی بجائے ہر فورم پر اسے مطعون کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے جی 20 کے اجلاس کے موقع پر ایک بار پھر پاکستان کے خلاف اپنی روایتی دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیا میں ایک دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔ کیا ایسی سوچ سے جنوبی ایشیا میں امن قائم ہو سکتا ہے؟ اور کیا مودی معلوم نہیں کہ پاکستان واحد ملک ہے جس نے دہشت گردی کے انسداد کے سلسلے میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں