مقبو ضہ کشمیر، اقلیتیں اور سکھ تحریک

مقبو ضہ کشمیر جل رہا ہے۔ کشمیری عوام انسانی حقوق اور آزادی کے حصول کے لئے بے مثال قربانیاں پیش کررہے ہیں۔دو ماہ کے عرصے میں 100 کے قریب کشمیری جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔کشمیری عوام بھرپور طریقے سے بھارتی قابض فوج کی بربریت اور ظلم کا مقابلہ کررہے ہیں ۔ بھارت طاقت کے بہیمانہ استعمال سے اس تحریک کو روکنا چاہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس نے مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوجیوں کو نہتے کشمیریوں پر ہر قسم کا اسلحہ استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے، عالمی برادری اس ہولناک منظر کو دیکھ رہی ہے، لیکن ابھی تک اس کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں اس ظلم کو رکوانے کے سلسلے میں کوئی معنی خیز پیش رفت نہیں ہوئی ؛ تاہم سری نگر میں سکھ دانشوروں ا ور سکھ سٹوڈنٹس فیڈریشن کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض فوجیوں کی جانب سے کئے جانے والے ظلم کی سخت ترین مذمت کی گئی ہے، اور اس کے ساتھ ہی ان سکھ تنظیموں کی جانب سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے مطالبات فی الفور منظور کرے ۔کشمیریوں کا یہ مطالبہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق ہے جبکہ خود بھارت کے ماضی کے تمام نیتائوںنے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیاہے اور یقین دلایا کہ انہیں استصوابِ رائے کا حق ضرور دیا جائے گا، لیکن بعد میں بھارت کے نیتائوں کے یہ تمام وعدے نقش بر آب ثابت ہوئے ہیں۔ 
مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور بھارت کے قابض فوج کی جانب سے نہتے کشمیریوں پر ہونے والے ظلم کو وزیراعظم جناب نواز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بے نقاب کریں گے اور عالمی برادری سے مطالبہ کریں گے کہ کشمیریوں کو ان کا حق دلوایا جائے جس کی قرارداد خود سکیورٹی کونسل نے منظور کی ہے، اسی پس منظر میں میاں نواز شریف نے آزاد کشمیر میں حریت کے رہنمائوں سے ملاقات کی ہے۔ شنیدہے کہ انہوںنے حریت رہنمائوں کو یقین دلایا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ان کی آواز کو موثر طورپر اٹھایا جائے گا، اس کے علاوہ عالمی تنظیم کے اس اجلاس میں شرکت کرنے والے حکومتوں کے نمائندوں اور سربراہوں سے ملاقات کرکے مقبوضہ کشمیر سے متعلق حقائق سے آگاہ کیا جائے گا اور نہتے کشمیریوں پر بھارت کی قابض فوج کی جانب سے ہونے والے ظلم اور بربریت کو رکوانے کی بھر پور کوشش کی جائے گی۔
مقبوضہ کشمیر میںبھارتی حکومت کی جانب سے ظلم کے خلاف دنیا بھر میں حق کی آواز بلند ہورہی ہے، خود بھارت کے اندر فہم رکھنے والے افراد اور تنظیمیں نریندرمودی کی مقبوضہ کشمیر سے متعلق پالیسی پر سخت برہم ہیں، ان کا یہ خیال ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ بھی ہورہاہے اس کی وجہ بھارت کے وزیراعظم کی ناقص پالیسیاں اور سوچ ہے، اگر مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ ظلم اورزیادتیوں کا سلسلہ جاری رہا تو اس کے عمومی نتائج بھارت کے حق میںاچھے نہیں ہوں گے، بلکہ بھارت کے اندر جو علیحدگی کی تحریکیںچل رہی ہیں، ان میں مزید تیزی آسکتی ہے۔مشرقی پنجاب میں سکھ پہلے ہی نریندرمودی کی انتہا پسند سوچ کے خلاف ہیںبلکہ شواہد بتارہے ہیں کہ کچھ نامور سکھ تنظیمیں جلد اپنے حقوق کے سلسلے میں مظاہروں کا سلسلہ شروع کرنے والی ہیں۔ نکسل باڑی کی تحریک اپنے عروج پر ہے، بلکہ یہ تحریک اتنی مضبوط اور منظم ہوچکی ہے کہ سنٹرل انڈیا میں اس کے احکامات پر صوبائی حکومتیں عمل درآمد کرنے کی پابند ہیں۔ سابق وزیراعظم من موہن سنگھ نے نکسل باڑی تحریک سے متعلق کہا تھا کہ بھارت کا سب سے بڑا مسئلہ نکسل باڑی کی تحریک ہے جو آئندہ بھارت کو توڑنے کا سبب بنے گی۔ اس وقت بھارت کی پولیس اور پیراملٹری فورس اس تنظیم کے خلاف ''جنگ‘‘ میں مصروف ہے، لیکن کامیابی کے کوئی امکان نظر نہیں آرہے ۔ اگر نکسل باڑی کی تحریک کا سلسلہ پاکستان کے قرب وجوار میں ہوتا تو بھارت کا جنونی وزیراعظم اس میں پاکستان کے ملوث ہونے کا واویلا ضرور مچاتا جیساکہ وہ مقبوضہ کشمیر کے سلسلے میں کررہاہے، بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے عوام پر ظلم وبربریت کے خلاف نیویارک میں بعض تنظیمیںمظاہرہ بھی کریں گی اور اس کا باقاعدہ اعلان بھی کردیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ نریندرمودی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے نہیں گئے بلکہ انہوںنے سشماسوراج کو وہاں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نریندرمودی کو معلوم ہے کہ نیویارک میں ان کا کس طرح خیر مقدم کیاجائے گا، چنانچہ اس خوف کی بنا پر وہ نہیں گئے۔
مقبوضہ کشمیر کے عوام پر بھارت کی قابض فوج کی جانب سے ظلم وبربریت اب عالمی میڈیا میں گفتگو کا موضوع بنتی جارہی ہے، اس ضمن میں بی بی سی نے پاکستان بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر سے سوال کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک میںکیاپاکستان ملوث ہے؟ انہوںنے جواب دیا کہ یہ خالصتاً مقامی تحریک ہے جو برہان وانی کے قتل کے بعد شروع ہوئی ہے، اس میں پاکستان کا ہاتھ نہیں ہے، ایک اور سوال کے جواب میں عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ کو بلوچستان سے جوڑنا مناسب نہیں ہے، بلوچستان میں انسانی حقوق کی اس طرح پامالی نہیں ہورہی ہے جیسا کہ مقبوضہ کشمیر میں ہورہاہے، واضح رہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی مقبوضہ کشمیر کو بلوچستان سے جوڑنے کی کوشش کرتا ہے، حالانکہ بلوچستان میں نہ تو کوئی ایسی تحریک ہے اور نہ ہی بلوچستان ایک متنازع مسئلہ ہے، جیساکہ کشمیر ہے، تاہم عالمی برادری کو چاہئے کہ وہ اس مسئلہ کا سیاسی حل تلاش کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرے ۔ اگر بھارت کی حکومت کی جانب سے نہتے کشمیریوں پر ظلم روا رکھنے کا یہی سلسلہ جاری رہا تو کسی بھی لمحہ اس متنازع مسئلہ پر بھارت اور پاکستان کے درمیان فوجی تصادم کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں