افغانستان بھارت کا وکیل بن گیا !

افغانستان کے انتہائی کمزور اور ناتواں صدر اشرف غنی نے گزشتہ دنوں ایک مرتبہ پھر پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت کے لئے واہگہ بارڈر سے براہ راست افغانستان کے لئے تجارت کا راستہ کھول دے، اشرف غنی کا اس سلسلے میں یہ پہلا مطالبہ نہیں ہے، اس سے قبل بھی وہ اس طرح کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ بھارت نے بھی اس سلسلے میں پاکستان سے اسی قسم کی درخواست کی تھی، لیکن پاکستان کے اعلیٰ حکام نے اس مطالبے کو مسترد کردیا ۔ اس کی کئی وجوہ ہیں، پہلا یہ کہ بھارت اس ''تجارت‘‘ کی آڑ میں اس راہداری سے افغانستان میں ان عناصر کی حوصلہ افزائی کرسکے گا جو پہلے ہی سے پاکستان کے لئے دہشت گردی کے حوالے سے بے پناہ مسائل پیدا کررہے ہیں، دوسرا بھارت اس خطے میں پاکستان کا دشمن نمبر ایک بن چکا ہے، وہ کھلے بندوں پاکستان کے اندر ''را‘‘ کے ذریعہ ایسے عناصر کی مدد کررہا ہے جو پاکستان کے اندر قتل وغارت گری کرنے کے علاوہ مختلف علاقوں میں بم دھماکے کررہے ہیں جس میں کوئٹہ سانحہ بھی شامل ہے، اس واقعے میں 72وکلاء شہید ہوگئے تھے، مزیدبرآں مقبوضہ کشمیر میں نہتے عوام پر ظلم وتشدد کے جو پہاڑ توڑے جارہے ہیں اس کا براہ راست تعلق نریندرمودی سے ہے جو مقبوضہ کشمیر کے عوام کو کسی قسم کا حق خودارادیت دینے کو تیار نہیں اور نہ ہی وہ اس تحریک آزادی کے مقامی رہنمائوں سے مذاکرات چاہتا ہے، حالانکہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازع مسئلہ ہے، جس کو اقوام متحدہ کے علاوہ امریکہ سمیت ساری دنیا نے تسلیم کیاہے۔
افغانی صدر نے واہگہ بارڈر سے بھارت کے لئے تجارتی راستے دینے کے مطالبے کے ساتھ پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ان کا یہ مطالبہ ''منظورنہیں ہوا تو پاکستان کے لئے وسط ایشیا ئی ریاستوں کے مابین تجارت کے ضمن میں تمام سہولتیں بند کردیں گے۔ ظاہر ہے کہ دھمکی کا یہ سکرپٹ بھی بھارت کی جانب سے دیا گیا ہے، لیکن شایداشرف غنی کو اس بات کا ادراک نہیںہے کہ خود ان کی صدارت بھی خطرے میں پڑگئی ہے۔سابق صدر حامد کرزئی جو کسی زمانے میں سی آئی اے کے لئے تنخواہ پر کام کرتا تھا، اب اشرف غنی کو صدارتی منصب سے ہٹانے کے لئے نہ صرف بھارت سے مدد طلب کررہا ہے ، بلکہ کابل میں موجود وارلارڈز سے بھی رابطہ کررہا ہے، نیز افغانستان میں حال ہی میں جو بم کے دھماکے ہوئے ہیں اس میں کرزئی ملوث ہے، جو ایک طرف تو اشرف غنی کی حکومت کو افغانستان میں طالبان کی سرگرمیوں کو روکنے میں ناکامی پر مطعون کررہا ہے، تو دوسری طرف وہ ان دہشت گردوں کے پیچھے پاکستان کو بھی ملوث کرکے بدنام کررہاہے، وہ آج کل مسلسل دہلی میں بیٹھ کر اشرف غنی کے خلاف منصوبہ بندی کررہاہے۔ تاجک رہنما عبداللہ عبداللہ بھی اس کا اس سلسلے میں ہمنوا بن چکاہے، اس کو حامد کرزئی نے لالچ دیا ہے کہ آئندہ اس کو افغانستان کا صدر بنا دیا جائے گا، کیونکہ گزشتہ عام انتخابات میں اس کے ووٹ اشرف غنی کے برابر تھے؛تاہم امریکہ اشرف غنی کی حمایت کررہا ہے۔ امریکہ اور حامد کرزئی کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں، امریکہ کے حکام کا یہ خیال ہے کہ حامد کرزئی نے جان بوجھ کر افغان طالبان سے مذاکرات کرنے میں دلچسپی نہیں لی تھی بلکہ جب پاکستان کی جانب سے افغانستان ، امریکہ اور طالبان کے مابین دوحہ میں ملاقات کا اہتمام کیا تھا، تو کرزئی نے اس کو سبوتاژ کردیا تھا، آج بھی وہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت کا حامی نہیں ہے، بلکہ افغانستان میں مسلسل افراتفری پیدا کرنے میں شامل ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ کسی طرح ایک بار افغانستان خانہ جنگی کی لپیٹ میںآجائے، بھارت حامد کرزئی کی اس منصوبہ بندی کا زبردست حامی ہے۔
افغانستان میں زمینی حقائق یہ بتارہے ہیں کہ جلد یا بدیر ایک بار پھر افغانستان کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیاجائے گا، جس میں حامد کرزئی اور بھارت کا ہاتھ ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اگر افغانستان ایک بار پھر خانہ جنگی کی صورت میں افراتفری کا شکار ہوگیا تو اس کے منفی اور مضر اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے، ایک بار پھر افغانوں کی ایک بڑی تعداد نقل مکانی کی صورت میں پاکستان اور ایران کا رخ کریں گے، جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ سکتی ہے۔ اس وقت بھی بیس لاکھ کے قریب افغانی پاکستان میں موجود ہیں اور پاکستان کی معیشت پربوجھ بنے ہوئے ہیں، بلکہ بعض مستند معلومات کی روشنی میں پاکستان کے اندر تخریبی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت ان افغانیوں کو واپس وطن بھیجنے کا مطالبہ کررہی ہے لیکن موجودہ حکمران قیادت نے امریکہ کے دبائو میں انہیں مزید چھ ماہ تک پاکستان میں ٹھہرنے کی اجازت دے دی ہے، جو کسی بھی صورت میںپاکستان کے مفاد میں نہیں
ہے، لیکن حکمرانوں کو کون سمجھائے کہ یہ لوگ آئندہ اس ملک میں بھی ایسے ہی گل کھلائیں گے۔
تاہم روس اور چین افغانستان کی موجودہ صورتحال پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں، یہ دونوں ممالک بھارت کی افغانستان میں موجودگی کو انتہائی نا پسند یدگی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، ویسے بھی بھارت کا افغانستان میں امن عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے، ماضی میں بعض عالمی طاقتوں نے بھارت کو یہ رول دینے کی کوشش کی تھی ، لیکن بری طرح ناکام رہے تھے، چین نے افغانستان میںبھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے، اس لئے اس کی خواہش ہے کہ افغانستان میں امن قائم رہے اور اس کے ساتھ ہی اشرف غنی کی حکومت بھی!روس کی بھی کم وبیش یہی خواہش ہے، روس بھارت کی امریکہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی دوستی کو اپنے مفاد میں ایک کاری ضرب سمجھتا ہے، اس لئے وہ چین کی افغانستان سے متعلق ہر پالیسی کی حمایت کر رہا ہے۔ پاکستان کے روس کے ساتھ بھی اچھے تعلقات قائم ہورہے ہیں، لیکن پاکستان کی موجودہ قیادت امریکہ کے خوف کی وجہ سے روس کے ساتھ پائیدار تعلقات کے قیام کے سلسلے میں پس وپیش کا مظاہرہ کررہی ہے، حالا نکہ بقول ایک سابق سفیرکے ''پاکستان کے موجودہ صورتحال کی روشنی میں بلا تاخیر روس کے ساتھ اپنے تعلقات میں مضبوطی پید اکرنے کی کوشش کرنی چاہئے‘‘ کیا پاکستان کی موجودہ قیادت ایسا کرسکے گی؟ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں