پانچ بڑے خاندان اور پیٹ کا علاج

گزشتہ زمانے میں جب ڈاکٹر محبوب الحق پلاننگ کمشن کے چیئر مین تھے تو انہوں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اخبار نویسوں کو بتایا تھا کہ پاکستان میں بائیس خاندان دولت کے مالک ہیں، انہی کے توسط سے براہ راست یا بالواسطہ حکومتیں بنتی اور بگڑتی ہیں۔ محبوب الحق کے بائیس خاندانوں کا چرچا بہت عرصے تک پاکستان کے سیاسی اور سماجی حلقوں میں گفتگو کا موضوع بنارہا، آج بھی معاشی صورت حال سے متعلق سیمیناروں میں بائیس خاندانوں کا ذکر خیر ہوتا رہتا ہے۔ اب ایک طویل عرصے کے بعد عوامی مسلم لیگ کے سربراہ جناب شیخ رشید نے30 ستمبرکو رائیونڈ میں اپنی پر جوش تقریر میں انکشاف کیا ہے کہ اس وقت پاکستان میں دولت پانچ خاندانوں کے پاس ہے جبکہ ان کے32 بچے، بچیاں اس دولت میں براہ راست شریک ہیں۔ شیخ رشید نے جن پانچ خاندانوں کا ذکر کیا ہے ان میں ایک میاں نواز شریف ہیں جو اس وقت پاکستان کے وزیراعظم ہیں اور جن پر پاناما لیکس کے سلسلے میں پاکستان کی دولت اپنے بیٹوں اور بیٹی کے نام منتقل کرنے کے سلسلے میں عوام وخواص میں بحث ہوتی رہتی ہے۔ لیکن اس حقیقت سے کس کو انکار ہو سکتا ہے کہ پاناما لیکس کی آف شور کمپنیوں میں نواز شریف کے خاندان کے نام پر جو کمپنیاں قائم ہیں وہ سارا پیسہ ناجائز تھا اورکرپشن کے ذریعہ وہاں منتقل کیا گیا۔ لندن میں نواز شریف کی اربوں روپے مالیت کی جائیدادیں بھی اسی پیسے 
سے خریدی گئی ہیں۔ دوسرا خاندان جس نے ناجائز ذرائع سے دولت حاصل کی اور باہر منتقل کی ہے اس میں آصف علی زرداری بھی شامل ہیں؛ اگرچہ ان کا نام پاناما لیکس میں نہیںہے۔ لیکن ساری دنیا جانتی ہے کہ انہوںنے ناجائز ذرائع بالخصوص اپنے زمانہ صدارت کے دوران یہ دولت جمع کی تھی اور اسی ناجائز دولت پر وہ اور ان کا خاندان عیش وعشرت کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ باقی تین خاندان وہ ہیں جن کے پاس بینکس اور ٹیکسٹائل اور شوگر ملیں ہیں۔ ان پانچ خاندانوں نے پاکستان کی نوکر شاہی کے ساتھ مل کر، جس میں ایف بی آر بھی شامل ہے، ناجائز طریقے اور اپنے سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعے دولت جمع کی اور اس ناجائز دولت کے ذریعے وہ سیاست کر رہے ہیں اور اقتدار میں آکر اس دولت میں مزید اضافہ بھی کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ان پانچ خاندانوں کے 32 جوان بچے اور بچیاں میں جو اپنے''بزرگوں‘‘ کے نقش قدم پر چل کر ناجائز دولت حاصل کر رہے ہیں، ان کے ذرائع روزگار معمولی قسم کے ہیں، لیکن'' بزرگوں‘‘ کے سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعے یہ تحارت میں سرخرو ہیں اور اگر آئندہ ملک میںکوئی بامعنی سیاسی تبدیلی نہیں آتی ہے تو یہ بچے، بچیاں دولت کمانے کے سلسلے میں اپنے ''بزرگوں‘‘ سے بھی آگے نکل جائیں گے۔ 
تحریک انصاف کے سربراہ جناب عمران خان، نواز شریف سے ان کے احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں، یہ مطالبہ میاں نواز شریف کو بہت ناگوارگزر رہا ہے۔ ظاہر ہے سچی بات کڑوی لگتی ہے؛ تاہم میاں صاحب نے خود قومی اسمبلی کے فلور پر یہ کہا تھا کہ وہ خود کو احتساب کے لئے پیش کر رہے ہیں اور جلد اس کا اعلان بھی ہوجائے گا۔ لیکن چھ ماہ گزرنے کے باوجود وہ نہ تو خود اپنے آپ کو حسب وعدہ احتساب کے لئے پیش کر سکے ہیں اور نہ ہی سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے کر انہیں عدالت میں طلب کیا ہے۔ اس لئے ایک بار پھر رائیونڈ میں تحریک انصاف کے زیر اہتمام ہونے والے سب سے بڑے جلسے میں ان سے احتساب کا مطالبہ کیا گیا اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ وہ دس محرم الحرام کے بعد اس ضمن میں حتمی جواب دیں ورنہ تحریک انصاف کے کارکن آئندہ اسلام آباد کا گھیرائوکریں گے اور انہیں حکومت نہیں کرنے دیںگے۔
تحریک انصاف کے کارکنوں کے اسی اجتماع میں عمران خان نے کہا کہ میاں نواز شریف کو دل کی بیماری نہیں ہے بلکہ ان کو پیٹ کی بیماری ہے۔ بالفاظ دیگر ان کا پیٹ ناجائز دولت کھا کر پھول گیا ہے جس کا علاج ضروری ہے اور وہ علاج صرف احتساب کی صورت میں ہی ہوسکتاہے۔ توکیا میاں نواز شریف پیٹ کا علاج کرائیں گے؟ ہو سکتا ہے کہ وہ ایسانہ کریں کیونکہ وہ ضدی واقع ہوئے ہیں، اس لئے کوئی دوسرا راستہ اختیار کرکے اپنی حکومت کو بچانے کی کوشش کریں گے۔ لیکن بعض تجزیہ نگاروں کے بقول ان کے لئے یہ کام اتنا آسان نہیں ہوگا۔ کرپشن کے حوالے سے میاں نواز شریف پاکستان سمیت پوری دنیا میں بد نام ہوچکے ہیں۔ دوسری طرف میاں صاحب کے درباری عمران خان پر یہ الزام عائد کر رہے ہیںکہ وہ ملک کی ترقی کو جلسے جلوس کرکے روک رہے ہیں اور ترقی معکوس کی طرف لے جارہے ہیں؛ حالانکہ ان درباریوں سے کوئی یہ پوچھے کہ کونسی ترقی؟ گزشتہ تین سالوں کے دوران میاں صاحب کی حکومت نے کونسے بڑے منصوبے پایۂ تکمیل کو پہنچائے ہیں، جس سے ملک کی اقتصادی ترقی نمایاں ہوئی ہے یا پھر اس کی شرح نمو میں کیا اضافہ ہوا ہے؟ خود اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں اپنی بجٹ تقریر میں یہ اعتراف کیا ہے کہ ان کی حکومت اقتصادی ترقی کا ہدف حاصل نہیں کرسکی، شرح نمو 4.3 فیصد تک رہی ہے۔ اس وقت حکومت جن ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کر رہی ہے وہ محض کاغذ پر ہیں، یہ ان کی آئندہ انتخابات جیتنے کی حکمت عملی ہے، لیکن اس حکمت عملی کو عوام کی طرف سے کسی قسم کی پذیرائی نہیں ملی۔ تاہم اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ میاں نواز شریف نے ناجائز ذرائع سے دولت حاصل کی ہے، ان ناجائز ذرائع میں ان کی سیاست اور ان کی حیثیت کو بڑا عمل دخل رہا ہے۔ سعودی حکومت نے بھی ان کی سماجی و معاشی حیثیت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کی سیاست کا آئندہ دار و مدار میاں صاحب کے احتساب کے ہونے یا نہ ہونے پر ہوگا۔ جب تک وہ اپنے آپ کو احتساب کے لئے نہیں پیش کریںگے، عمران خان کا مطالبہ ہر گزرتے دن کے ساتھ زور پکڑتا رہے گا۔ اس صورت حال کے پیش نظر میاں صاحب پر سکون انداز میں حکومت نہیں کرسکیں گے۔ ملک کی ترقی کا انحصار کرپشن فری پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے، جب تک کرپٹ عناصر کو بڑے بڑے عہدوں سے فارغ نہیں کیا جائے گا اور اس کے ساتھ ہی عدالتوں کے ذریعے ان کا احتساب نہیں ہوگا، پاکستان میں ترقی کے امکانات معدوم رہیںگے۔ ذرا سوچیے! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں