گزشتہ دنوںکیرالہ میں بھارت کے وزیراعظم نریندرمودی نے اپنی تقریر میں بھارت اور پاکستان دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ '' ہمیں باہم مل کر غربت کے خاتمے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے ‘‘بظاہر ان کا یہ بیان جنوبی ایشیا میں پائی جانے والی بھیانک غربت اور افلاس کے پس منظر میں بالکل ٹھیک تھا ، لیکن حقائق اور معروضی حالات اس کے بالکل بر عکس ہیں ۔بھارت اس وقت دنیا بھر سے جدید اسلحہ خرید رہا ہے اور سب سے بڑا اسلحہ خریدنے والا ملک بن چکا ہے۔ ابھی حال ہی میں اس نے روس کے ساتھ 12بلین ڈالر سے زائد کا جدید اسلحہ اور دفاعی نظام مضبوط بنانے کے سلسلے میں ایک معاہدے پر دستخط کئے ہیں، ان میں روس کی مدد سے بھارت میں ہیلی کاپٹر بنانے کا معاہدہ بھی شامل ہے ، جس پر جلد ہی عمل درآمد شروع ہوجائے گا۔
بھارت ، امریکہ، فرانس، اور برطانیہ سے بھی جدید اسلحہ خریدرہا ہے اور اپنے قیمتی وسائل اسلحہ خریدنے اور مقامی طورپر بھی اسلحہ بنانے پر خرچ کررہا ہے، گلوبل تھنک ٹینک کے مطابق بھار ت پوری دنیا کا 14 فیصداسلحہ درآمد کررہاہے، جس کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں مہلک اسلحہ کی ایک ایسی دوڑ شروع ہوگئی ہے جس کا فی الحال رکنا نظر نہیں آرہا ہے، پاکستان کی کمزور معیشت جدید اسلحہ خریدنے کی زیادہ قوت نہیں رکھتی ۔ اس لئے وہ اس خطرناک دوڑ میں فریق نہیں ہے، اس کے برعکس چین سیاسی، معاشی ودفاعی لحاظ سے اس خطے کا ایک مضبوط ترین ملک ہے، چین کے اثرات اب کئی براعظموں میں پھیل رہے ہیں اور محسوس بھی کئے جاتے ہیں، چین نے معاشی ترقی کے ثمرات کو اپنے عوام تک پہنچایا ہے اور اب بھی وہ اس پالیسی پرگامزن ہے، چینی عوام کی چین کی معاشی پالیسیوں کے سبب ان کا معیار زندگی بلند ہواہے۔ اس کے برعکس بھارت کی تقریباً 50کروڑآبادی خطہ افلاس کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے، لیکن اس کو اپنے عوام کی فلاح وبہبود کا کوئی خیال نہیں ہے، اس کا موجودہ وزیراعظم جنگی جنون میںمبتلا ہو چکا ہے، وہ بیک وقت چین اور پاکستان کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتا ہے، لیکن اس میںجنگ میں پہل کرنے کی ہمت نہیں ہے، حالانکہ جنوبی ایشیا سے باہر ایسی طاقتیں بدرجہ اتم موجود ہیں جو بھارت کو چین اور پاکستان کے خلاف مسلسل مشتعل کر رہی ہیں، اس خطے میں انتہا پسندی پھیل رہی ہے اور امن کے تمام امکانات بھی معدوم ہورہے ہیں، گزشتہ پندرہ سالوں کے اندر بھارت نے جدید مہلک ہتھیاروں کے حصول کے لئے 120بلین ڈالر خرچ کئے ہیں، اس کے علاوہ وہ امریکہ اور فرانس کی مدد سے اسلحہ بنانے کی اپنی مقامی صنعتوں کو بھی تیزی سے فروغ دے رہا ہے، بعض چھوٹے ممالک جن میں سارک کے ایک دو ممالک بھی شامل ہیں ، بھارت سستے داموں اسلحہ فروخت کرکے انہیں معاشی وسیاسی بنیادوں پر اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بنگلہ دیش اور افغانستان بھارت کا اسلحہ حاصل کرنے میں سرفہرست ہیں، جبکہ ان دونوں ممالک کے عوام غربت وافلاس کی انتہائی نچلی سطح پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ افغانستان میں خانہ جنگی جاری ہے اور وہاں کرپشن اپنے عروج پر ہے۔ افریقہ کے بعض ممالک بھی بھارت سے اسلحہ خرید رہے ہیں، لیکن اس کا حجم زیادہ نہیں ہے۔
اس وقت بھارت کا دفاعی بجٹ) (2016-2017 گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً دس فیصد زیادہ ہے، اس طرح بھارت اس خطے میں سب سے زیادہ روپیہ اور اپنے وسائل اپنے دفاعی شعبے میں خرچ کررہاہے، جبکہ ہر سال اس میں اضافہ بھی ہوتاجا رہاہے، چنانچہ خود بھارت کے بعض معاشی
ماہرین بھارت کی حکومت سے یہ سوال کررہے ہیں کہ یہ اسلحہ کس لئے اور کس کے خلاف خرید اجارہاہے، اور کس کے خلاف استعمال ہوگا؟ نیز یہ کہ بھارت کو اپنی آزادی اور خودمختاری کے سلسلے میں کس سے خطرہ لاحق ہے؟تاہم بھارت کے اندورنی ذرائع اکثر یہ کہتے رہتے ہیں کہ انہیں پاکستان اور چین سے اپنی سا لمیت کو خطرہ لاحق ہے، بھارت کی ساری تیاری انہی دونوںملک کے خلاف ہے، حالانکہ نہ تو چین اور نہ ہی پاکستان بھارت کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتاہے۔ پاکستان کا بھارت کے ساتھ تنازع کشمیر، سیاچن اور سرکریک پر ہے جسے پاکستان اکثر بھارت کے ساتھ بات چیت کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کرتا رہتاہے۔ حالیہ دنوں بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میںغیر معمولی اضافہ ہواہے، اس کی سب سے بڑی وجہ مقبوضہ کشمیر میںبھارت کی قابض فوج کا روز افزوں کشمیریوں پر بڑھتا ہوا ظلم ہے، جس پر نہ صرف پاکستان بلکہ ساری دنیا کو گہری تشویش واضطراب ہے۔ امریکہ اور چین نے بھی بارہا بھارت سے کہا ہے کہ وہ بات چیت کے ذریعہ اس مسئلہ کو حل کرکے جنوبی ایشیا میں سیاسی حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کرے، لیکن پاکستان دشمن انتہا پسند نریندرمودی اپنی
حکومت کی ساری توانائیاں پاکستان کو تنہاکرنے میں صرف ہورہی ہیں جوکہ نا ممکن ہے۔ مقبوضہ کشمیر میںبھارت کی قابض فوج کی جانب سے کئے جانے والے ظلم وبربریت سے توجہ ہٹانے کے لئے پاکستان کو ملوث کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ چین نے بھارت کی ساحلی ریاست گوا میں بر کس کے اجلاس میں اپنی تقریر میںبڑی وضاحت سے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کا احترام کیاجانا چاہئے، پاکستان دہشت گرد ملک نہیں ہے، دہشت گردی سے بھارت اور پاکستان دونوں متاثر ہوئے ہیں۔ چین کے صدر کی تقریر کے بعد نریندرمودی کی پریشانی قابل دیدتھی۔ اس کو یقین تھا کہ برکس کے اجلاس میں چینی صدر دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کو ملوث کرنے کی کوشش کریں گے، لیکن ایسا نہ ہوا۔ دراصل چین کے صدر نے دہشت گردی کے حوالے سے عالمی برادری کو ایک بار پھر سوچنے کا موقع دیاہے کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ مشرق وسطیٰ ، امریکہ ، فرانس، اسرائیل اور افریقہ کے بعض ممالک میںہونے والی دہشت گردی میں کیا پاکستان ملوث ہے؟ عالمی برادری کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی سے متعلق بھارت کے پروپیگنڈے کی پر زور مذمت کرنی چاہئے، تاکہ ان دونوں ملکوں کے درمیان باہمی معاملات میں سدھار پیدا ہوسکے، ورنہ کشیدگی کی صورت میں اسلحہ کی دوڑ جاری رہے گی جس کا ذمہ دار خود بھارت ہوگا۔