افغانستان میں امریکہ کے پندرہ سال

سات اکتوبر 2016 ء کو افغانستان میں امریکہ کو طالبان کے خلاف جنگ کرتے ہوئے پندرہ سال مکمل ہوگئے ہیں۔ امریکہ نے 7 اکتوبر 2001ء کو افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خلاف حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں طالبان کی چھ سالہ حکومت ختم ہوگئی۔ یہ حملہ جارج ڈبلیو بش کے حکم پر کیا گیا تھا جن کا یہ خیال تھا کہ 11ستمبر2011ء کو نیویارک کے ٹریڈ ٹاورز پر جو حملہ ہوا تھا اس کا تعلق افغانستان سے تھا، جہاں القاعدہ کی مرکزی قیادت براجمان تھی؛ حالانکہ جہازوں کے ذریعے ٹریڈ ٹاورز اور پینٹاگان پر حملہ کرنے والوںکا تعلق افغانستان یا افغانیوں سے نہیں تھا، بلکہ ان میں سے زیادہ (17)کا تعلق سعودی عرب اور باقی تین کا متحدہ عرب امارات سے تھا۔ تاہم یہ بات عالمی سطح پر متنازع بن چکی ہے کہ ٹریڈ ٹاورز پر حملہ کس نے کیا؟ کیا اس حملے میں صرف القاعدہ ملوث تھی یا ایسی طاقتیں بھی شامل تھیں جو ازل سے مسلمانوں کے خلاف بغض وکینہ رکھتی ہیں تاکہ انہیں بدنام کیا جائے؛ تاہم جس فنی مہارت سے ٹریڈ ٹاورز کو ہوائی جہازوں کے ذریعے تباہ کیا گیا وہ سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات کے نوجوان نہیں کرسکتے تھے۔ ان میں اتنی صلاحیت یا فنی مہارت نہیں تھی۔ بہر حال اب امریکہ گزشتہ پندرہ برسوں سے افغانستان میں افغان طالبان کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ اس ڈیڑھ دہائی میں امریکہ کے علاوہ نیٹو سے تعلق رکھنے والے ممالک کے 3500 فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔ مرنے والوں میں 2300 امریکہ کے فوجی بھی شامل ہیں۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد 33000 ہزار ہے۔ انسانی جانوں کی ہلاکت کے علاوہ امریکہ نے اس جنگ میں ایک ٹریلین ڈالر خرچ کئے ہیں۔ اتنی بڑی رقم امریکہ نے ویت نام کی جنگ میں بھی نہیں خرچ کی تھی۔ یہ جنگ اب بھی جاری ہے اور اس میں افغان آرمی بھی شامل ہے، لیکن حال ہی میں بارک اوباما نے امریکی فوجیوںکی تعداد میں واضح کمی کر دی ہے۔ اس وقت تقریباً دس ہزارامریکی فوجی نیٹو کے دیگر فوجیوں کے ساتھ افغان طالبان سے جنگ کر رہے ہیں، لیکن انہیں فتح حاصل نہیں ہوئی؛ حالانکہ امریکہ نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو ختم کرتے ہوئے عالمی برادری کو یہ یقین دلایا تھا کہ امریکہ افغانستان میں جمہوریت قائم کرے گا۔ وہاں کے فرسودہ استحصالی سماجی نظام کی جگہ تعلیم کے پھیلائو کے ذریعے نیا سیاسی و سماجی نظام تشکیل دینے کی کوشش کرے گا، لیکن پندرہ سال گزر جانے کے باوجود افغانستان میں نہ تو جمہوریت نظر آ رہی ہے اور نہ ہی وہاں کا جبر و تشدد پر مبنی قبائلی نظام کا خاتمہ ہوا ہے۔ تاہم کابل کی حد تک یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کچھ خواتین کے لئے تعلیم کے دروازے کھل گئے ہیں۔ طالبان کے دور میں خواتین کے ساتھ انتہائی نازیبا سلوک کیا جاتا تھا اور وہ گھروں میں قید ہوکررہ گئی تھیں، اگر باہر نکلنا ہوتا تو بغیرکسی مرد کے نہیں نکل سکتی تھیں۔ لیکن اب نوجوان بچے اور بچیاں تعلیم کی طرف راغب ہورہے ہیں۔یقیناً امریکہ کا اس شعبے میں کام قابل تعریف ہے، 
لیکن امریکہ افغان عوام کا نہ تو ذہن جیت سکا ہے اور نہ ہی دل، یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی قابض فوجوں کے خلاف افغان طالبان کی جنگ جاری ہے، جو آئندہ بھی جاری رہے گی کیونکہ ابھی تک افغان طالبان کی جانب سے حکومت میں شامل ہونے کے اشارے نہیں ملے۔ اگرچہ طالبان اور امریکہ کے نمائندوں کے ساتھ پاکستان کی حکومت کے تعاون سے اس اہم مسئلے پر مری اور دوحہ میں مذاکرات ہوچکے ہیں، لیکن ان کا نتیجہ نہیں نکل سکا۔ اس وقت بھی دوحہ میں امریکہ اور افغان طالبان کے نمائندوں کے درمیان ''خفیہ‘‘ بات چیت ہو رہی ہے۔ افغان طالبان کا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ افغانستان سے امریکہ اور نیٹو کی افواج فی الفور نکل جائیں، اس کے بعد اقوام متحدہ کی سرپرستی میں عام انتخابات کرائے جائیں، لیکن امریکہ اور افغان حکومت کو طالبان کی یہ شرائط منظور نہیں ہیں، کیونکہ اگر امریکہ اور نیٹو کے فوجی افغانستان سے چلے جاتے ہیں تو افغانستان کی موجودہ حکومت کا دھڑن تختہ ہوجائے گا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک بار پھر افغانستان میں ماضی کی طرح وسیع پیمانے پر خانہ جنگی شروع ہوجائے۔ اس طرح ایک بار پھر یہ پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے۔ پاکستان، چین ، ایران اور روس افغانستان میں متحارب دھڑوں کے درمیان مذاکرات کے حق میں ہیںاور جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ پاکستان اور چین امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان میں امن کے سلسلے میں زیادہ محترک اور فعال ہیں۔ اگر افغانستان میں ایک بار پھر خانہ جنگی شروع ہوگئی تو اس کی وجہ سے پاکستان شدید متاثر ہوگا۔ بھارت کا افغانستان میں کردار بی جمالوکا ہے، وہ افغانستان کی موجودہ حکومت کو اور ماضی میں حامد کرزئی کی حکومت کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا آیا ہے۔ افغان حکومت میں کرپشن کو بھی پھیلانے میں بھارت کا اہم کردار ہے۔ دوسری طرف پاکستان کا یہ موقف درست ہے کہ افغانستان میں امن کا قیام پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ہے جبکہ بھارت کی سوچ اس سے مختلف ہے، وہ پاکستان کو ایک مخصوص پالیسی کے تحت افغان خفیہ اداروں کے تعاون سے دہشت گردی کرا کر افراتفری پیدا کر رہا ہے۔ بھارت کا وزیر اعظم نریندرمودی پاکستان کا دشمن نمبر ایک ہے، جو کسی نہ کسی بہانے پاکستان کے خلاف جنگ کرنا چاہتا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر اس کی کارروائیاں اس کے مذموم عزائم کو ظاہر کر رہی ہیں، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی جانب سے مظلوم کشمیریوں پر ظلم و بربریت نریندرمودی کی مسلمان دشمنی پالیسیوں کی عکاسی کر رہی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں پندرہ سالہ جنگ سے کیا حاصل ہواہے؟ کیا اس نے افغانستان کو فتح کرلیا ہے اورکیا موجودہ افغان حکومت اور ماضی کی حکومت امریکہ کے لئے Liability بن چکی ہے؟ کیا امریکہ تنگ آکر افغانستان سے چلا جائے گا، جس طرح اس کو ویت نام سے بڑے بے آبرو ہوکر نکلنا پڑا تھا؟ ان سوالات کا جواب امریکہ اور افغان طالبان کے پاس ہے۔ اگر امریکہ افغان طالبان کے مطالبات مان کر افغانستان سے چلا جاتا ہے اور اس کی جگہ اقوام متحدہ کی امن فوج آ جائے تو افغانستان میں امن قائم ہوسکتاہے۔ یہی افغانستان کے مسئلے کا حل ہے۔ امریکہ فی الحال ذہنی طور پر اس کے لئے تیار نہیں ہے۔ اگر وہ یہ قدم اٹھالیتا ہے تو اس کی پوری دنیا میں سبکی ہوگی جس طرح روس کی ہوئی تھی۔ تاہم افغان مسئلے کا حل امریکہ میں آئندہ بننے والی حکومت کی صوابدید پر ہوگا کہ وہ کیا چاہتی ہے؟ جنگ جاری رکھتی ہے یا افغانستان سے اقوام متحدہ کے تعاون سے چلے جانے کا فیصلہ کرتی ہے۔ یہ بڑے اہم سوالات ہیں جن کا جواب امریکہ کے آئندہ منتخب ہونے والے صدر کے پاس ہوگا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں