آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹینا لیگارڈ نے واشگاف الفاظ میں پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کو متنبہ کیا ہے کہ پاناما یابہاماس جیسی لیکس کو روکنے کے لئے احتساب ناگزیر ہوچکاہے، جب تک طرز حکومت خصوصیت کے ساتھ اقتصادی منصوبہ بندی میں شفافیت نہیں آئے گی، تب تک صورتحال میں بہتری کے آثار نمایاں نہیںہوسکیں گے۔یہ ٹھیک ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی ہدایت پر معاشی پالیسیوں میں بہتری لانے کی کوششیں کی ہیں، لیکن یہ ناکافی ہیں۔ اس شعبے میں جرأت مندانہ اقدامات کی ضرورت ہے، تاکہ بے روزگار افراد کے لئے نوکریاں دستیاب ہوسکیں۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حکومت نے صرف قرضے لینے پر سارا زور لگا دیا ہے۔ یہ قرضے کون کب اور کیسے واپس کرے گا اس کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ دس بیس سال بعد جب قرضے واپس کرنے کا وقت آئے گا تو موجودہ حکمران نہ جانے کہاں ہوں گے۔ قرضے لینے سے ملکی معیشت کو عارضی طور پر استحکام ملتا ہے لیکن بالآخر یہ قرضے گلے کی ہڈی بن جاتے ہیں جنہیں نگلا جا سکتا ہے نہ اُگلنا ممکن ہوتا ہے۔ نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے کیونکہ صرف اسی شعبے کی حوصلہ افزائی سے اقتصادیات کے شعبے میں مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ عوام کے معیار زندگی کا تعلق براہ راست اقتصادی ترقی سے وابستہ ہے۔ جبکہ حکومت معاشی ترقی کے اہداف حاصل نہیں کرسکی ہے۔ حالانکہ پاکستان کی آبادی میں 60 فیصد کا تعلق نوجوانوں سے ہے، لیکن ان کی صلاحیتوں سے بھر پور فائدہ نہیں اٹھایا جارہا، خواتین کا مسئلہ اور بھی سنگین ہے۔ مشکل سے 4 فیصدخواتین محنت مزدوری کرکے اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرسکی ہیں۔ خواتین کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے، کیونکہ خواتین پاکستان کی آبادی کا نصف ہیں، کرسٹینا لیگارڈ نے پاکستان میں ٹیکس کی مد میں آمدنی پر بھی اس اپنے خیالات کا اظہار کیا ، انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حکومت کو چاہئے کہ وہ ٹیکس کا دائرہ وسیع کرنے کے سلسلے میں تمام تر اقدامات اٹھائے، تاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کی جاسکیں، اس وقت پاکستان کا موجودہ ٹیکس نظام انتہائی ناقص ہے جس میں تبدیلیاں لانے کی اشد ضرورت ہے، جب تک ٹیکس کا دائرہ وسیع نہیں ہوگا، پاکستان کے عوام کے معیار زندگی میں کسی قسم کا اضافہ سوالیہ نشان رہے گا، آئی ایم ایف کی سربراہ کی سب سے بڑی تشویش پاکستان میں ہر سطح پر کرپشن کا ہونا ہے، جس میں حکومت کے وزرا، بیوروکریٹس کے علاوہ ثانوی درجے کے حکومتی اہلکار شامل ہیں، کرپشن کی وجہ سے پاکستان ساری دنیا میں بد نام ہوچکاہے، غیر ملکی سرمایہ نہیں آرہا ہے مقامی سرمایہ کار ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں، انہیں حکومت کی پالیسیوں پر یقین نہیں ہے، اگر پاکستان میں کرپشن نہ رکی تو معاشی ترقی کے اہداف بھی پورے نہیں ہوسکیں گے، تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کے زیر سایہ ہونے والا کرپشن کون روکے گا؟اور اس کا طریقہ کار کیا ہوسکتاہے؟ نیز احتساب سے متعلق بھی عام اور خواص یہ سوال کرتے رہتے ہیں کہ کیا پاکستان میں ایسا خودمختار ادارہ موجود ہے جو وزیر اعظم سمیت وزرا، بیوروکریٹس اور سرکاری اہل کاروں کا احتساب کرسکے؟ ایف آئی اے، ایف بی آر، احتساب بیورو محض نمائشی ادارے بن کر رہ گئے ہیں، موجودہ حکومت نے بے لگام کرپشن کے ارتکاب کے ذریعہ ان اداروں کی کارکردگی کو مشکوک بنادیا ہے؛ چنانچہ حکومتی اداروں میں کرپشن کو کون روکے گا؟کیا آئی ایم ایف کی کرپشن کے حوالے سے تشویش کا کوئی معقول ومناسب جواب ہے؟ ناقابل تردید حقیقت یہی ہے کہ کرپشن میں بعض بڑے سیاست دان بھی مبینہ طور پر ملوث ہیں،ان حقائق کے پس منظر میں پاکستان کی معاشی صورتحال میں کبھی بھی بہتری نہیں آسکے گی، اس حقیقت سے خود پاکستان کے بعض ذمہ دار افراد بھی یہی سوچتے ہیں۔ معاشی دہشت گردی نے پاکستان کے تہذیبی ڈھانچے کو کھوکھلا کردیاہے، اس لئے صرف ایک ہی راستہ رہ جاتاہے کہ سپریم کورٹ کو زیادہ فعال ہوتے ہوئے کرپشن کو ختم کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے اور کرپٹ عناصر کو قانون کے سامنے لانا چاہئے، اور اگر ایسا نہ ہوسکا تو پھر پاکستان اس خطے کا سب سے زیادہ کمزور ملک بن جائے گا، ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہمارے معاشی حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں، مغربی اخبارات میں حکومت کے حق میں مضامین لکھوانے سے معیشت نہ تو بہترہوگی اور نہ ہی عوام اس سے متاثر ہوں گے کیونکہ زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ آئی ایم ایف کے سربراہ کا یہ کہنا کہ پاکستان میں دہشت گردی کا مسئلہ ہنوز کسی نہ کسی صورت میں جاری وساری ہے، غور و فکر کا مستحق ہے،کرسٹین نے کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سینٹرز پر دہشت گردوں کی جانب سے حملے کی سخت مذمت کی اور مرنے والوں کے لواحقین سے اپنی گہری ہمدردی کا اظہار بھی کیا ۔ اس مسئلہ کی وجہ سے بھی پاکستان کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، اگر ضرب عضب شروع نہ کی جاتی اور بڑی حد تک دہشت گردوں کا صفایا نہ کیا جاتا تو یہ عفریت پاکستان دشمن طاقتوں کی مدد سے پاکستان کو (خاکم بدہن) ناکام ریاست بنا سکتا تھا، اس دہشت گردی کے خلاف جام شہادت پانے والے فوجیوں اور عوام کو سلام پیش کرنا چاہئے جن کی قربانیوں کی وجہ سے پاکستان محفوظ و مامون ہے، تاہم پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ساتھ ساتھ معاشی دہشت گردی کے خلاف بھی سخت اور ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، ورنہ نہ تو اقتصادی حالات بہتر ہوسکیں گے، اور نہ ہی معاشی ترقی کا خواب پورا ہوسکے گا بلکہ معاشی محرومیوں کی وجہ سے عوام کا معیارزندگی پست سے پست تر ہوجائے گا، جو ہم سب کے لئے ندامت اور شرمندگی کا باعث بنے گا، آئی ایم ایف کی سربراہ کے خیالات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں، کہ کرپشن کی وجہ سے پاکستان کن مصائب اور مشکلات سے دوچار ہے ، اس کی تمام تر ذمہ داری اس حکومت اور ماضی کی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے، جنہوں نے کرپشن اور ذاتی مفاد کے لئے پاکستان کو اس نہج پر پہنچایا ہے، اب ان سے نجات حاصل کرنا بہت ضروری ہوچکا ہے۔