سپریم کورٹ مبارک کی مستحق ہے کہ اس نے پاکستان کو دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن ) اور پی ٹی آئی کے درمیان تصادم سے بچالیا ہے، اور دونوں جماعتوں کے علاوہ دیگر پارٹیوںسے کہاہے کہ وہ پاناماآف شور کمپنیوں میں میاں نواز شریف کے خاندان کی چوری سے متعلق حقائق تین دن کے اندر سپریم کورٹ میں پیش کریں، اگر انہوںنے نئے ٹی آروز پر اتفاق نہیں کیا تو سپریم کورٹ خود ہی اپنا ٹی آروز بنائے گی تاکہ انصاف کے تمام تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جائز طریقے سے عوام کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس لایا جاسکے، نیز ایسے افراد کو سخت سزائیں دی جا سکیں گی، تاکہ آئندہ با اثر اور طاقتور افراد کرپشن نہ کرسکیں، اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے عدالتی کمیشن بنانے کا بھی اعلان کیا ہے ‘جو پانا ما آف شور ز کمپنیوں میں شریف خاندان کی ناجائز دولت کا سراغ لگا کر سپریم کورٹ کو آگاہ کرے گا، اس طرح سپریم کورٹ کے یکم نومبر کے بر وقت فیصلے سے پاکستان میں سیاسی انتشار فی الحال ٹل گیا ہے، یہ بھی خوش آئند ہے کہ عمران خان نے واضح طورپر کہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے تمام فیصلوں کو تسلیم کریں گے، اسی قسم کا اشارہ حکومت کی جانب سے بھی دیا گیا ہے؛ چنانچہ عمران خان نے 2نومبر کو اسلام آباد میں دھرنے کے اعلان کو ملتوی کرتے ہوئے اسے یوم تشکر میں تبدیل کردیا ۔ بعض سیاسی پارٹیاں جو دور سے سیاسی دنگل کا تماشا دیکھ رہی تھیں انہوںنے عمران خان کے دھرنے کو ملتوی کرنے پر اس کو Surrenderسے تعبیر کیا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہواہے ، سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں بقول وزیرداخلہ چودھری نثار نہ کسی کی ہارہوئی ہے، اور نہ کسی کی جیت ۔دراصل دور سے تماشا دیکھنے والی پارٹیاں جس میں پی پی پی سرفہرست ہے، ان کی دلی خواہش تھی کہ مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی کے درمیان کوئی بڑا تصادم ہوجائے جس کے نتیجہ میں فوج اقتدار میں آکر حالات کو سنوارنے کی کوشش کرے لیکن ان کی آرزو پوری نہیں ہوسکی ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر دونوں جماعتوں کی جانب سے ہونے والی حمایت اور تائید کی وجہ سے معیشت کا رُکا ہوا کاروبار دوبارہ شروع ہورہاہے، اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کے آثار نمایا ہورہے ہیں، عوام کے وسیع تر حلقوں نے اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا ہے، نیز اعلی عدالتوںکا وقار اور بھرم بھی بلند ہوا ہے، تاہم یکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ پاناما سے متعلق کتنی جلد تحقیقات کو مکمل کرتی ہے، اور عدالتی کمیشن اس کام میں کتنے دن لگائے گا؟ اگر تحقیقات کے سلسلے میںلیت ولعل سے کام لیا گیا یا پھر اس میں تاخیر ہوئی تو پھر سپریم کورٹ کا اپنا اعتبار دائو پر لگ سکتاہے، کیونکہ یہ بات تو اب کھل کر سامنے آگئی ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان نے پاناما کی آف شور کمپنیوں میں لگا یا جانے والا سرمایہ عوام کا چوری کیا ہواہے‘ ویسے بھی میاں صاحب پر کرپشن کے الزامات نئے نہیں ہیں، ان پر اس وقت بھی کرپشن کے ضمن میں پندرہ مقدمات زیر التوا ہیں۔
تاہم اس سلسلے ایک اہم بات کا بھی پتہ چلا ہے کہ میاں نواز شریف کے بعض با اعتماد لوگ، پاناما جاکر ریکارڈز کو بدلنے کی کوشش کررہے ہیں ، میاں نواز شریف اپنے اور اپنے خاندان کو کرپشن کے الزامات سے بچانے کے لئے اپنا تجارتی اور سیاسی اثرروسوخ اور روپیہ استعمال کرنے سے دریغ نہیں کریں گے، دراصل گزشتہ تیس سال سے دونوں بھائی بڑے بڑے پروجیکٹوں میں اربوں روپے کک بیک کی صورت وصول کرکے مال دار اور سیاسی طورپر طاقتور بن گئے ہیں بعد میں اس کا ناجائز دولت کا کچھ حصہ عام انتخابات میں عوام کی ''فلاح وبہبود‘‘ کے لئے خرچ کردیا جاتاہے، اس طرح وہ دوبارہ منتخب ہوکر ''جمہوریت‘‘ کے سائے میں کرپشن کا کھلے بندوں ارتکاب کرنا شروع کردیتے ہیں، اور جب ان پر طرح طرح کے الزامات لگتے ہیں جس میں بری طرز حکمرانی کا الزام بھی شامل ہے تو وہ گلا پھاڑ پھاڑ کر کہتے ہیں کہ ''جمہوریت‘‘ خطرے میں ہے، حالانکہ جمہوریت نہیں بلکہ ان کا اقتدار خطرے میں ہوتاہے، اور ناجائز طورپر کمائی ہوئی دولت بھی!پاکستان میں جمہوریت با اثر افراد اور ان کے حواریوں کی نظر میں صرف نعرے بازی کا نام ہے تاکہ ان پڑھ اور جاہل عوام کو زیادہ سے زیادہ دھوکہ میں رکھا جائے،تاکہ ان کا اقتدار برقرار رہے،بہر حال اب عوام اور خواص کی نگاہیں سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں، تاکہ حقیقی معنوں میں کرپٹ
عناصر کا احتساب ہوسکے، اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے، اس طرح میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ سپریم کورٹ کا پاناما لیکس سے متعلق صحیح اور غیر جانبدار فیصلہ ہی آئندہ نسلوں پر خوشگوار اثرات مرتب کرسکے گا۔سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کی بے دریغ کرپشن کی وجہ سے جہاں پاکستان کمزور ہوا ہے‘ اخلاقی اور مادی دونوں لحاظ سے ، وہیں عوام کے مسائل حل نہیں ہوسکے ہیں، بے پناہ مصائب نے گھیرا ہوا ہے، جبکہ روزگار کے مواقع بھی سکڑتے چلے جارہے ہیں جس کی وجہ سے پڑھے لکھے نوجوان باہر نوکریاں تلاش کرنے پر مجبور ہیں اس Brain Drainکی وجہ سے پاکستان ہر گزرتے دن کے ساتھ ہنرمندوں سے محروم ہورہاہے، تو دوسری طرف کم پڑھے لکھے اور جعلی ڈگریوں کے حامل افراد خوشامد اور کاسہ لیسی کے ذریعہ بڑی بڑی پوسٹوں پر براجمان ہیں، ان سے خیر یا پھر کسی قسم کی نیکی کی توقع کرنا عبث ہے، بگڑتے ہوئے سیاسی حالات نے سپریم کورٹ پر بھاری ذمہ داریاں عائد کردی ہیں، اس صورتحال کے پیش نظر ہر پاکستانی سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑا ہوکر کرپٹ سیاست دانوں کے بے رحمانہ احتساب کا مطالبہ کررہا ہے، گیند اب سپریم کورٹ میں ہے!!!